سیاسی درجہ حرارت اوردوستی کی بس

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : نوائے سروش

شمارہ : مئی 2005

            پچھلے چند ماہ سے وطن عزیز کے سیاسی درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا اورمارچ کے آ خری اور اپریل کے پہلے ہفتے کے دوران میں تو یہ اپنے عروج پر پہنچا ہوا تھا۔جس کا ایک مظہر،ایم ایم اے کی ہڑتال کی کال تھی۔دو اپریل کی اس کال سے قبل،ایم ایم نے ،مختلف شہروں میں بڑے بڑے سیاسی جلسے کیے جنھیں انھوں نے ملین مارچ کا نام دیا۔اگرچہ یہ جلسے ملین کے لغوی مفہوم سے کوسوں دور تھے تاہم کامیاب ضرو ر تھے۔ اس ھڑتال نے ملک کو سیاسی بخار میں مبتلا کر دیا اوروفاقی وزراتو اس بخار سے زیاد ہ ہی متاثر تھے۔

            ہمیں ان کے اس موقف سے قطعا ً اتفاق نہیں ہے کہ ہڑتا ل کی کال دے کر اپو زیشن نے وطن عزیز سے غداری کی ہے، یا اپو زیشن وطن دشمن طاقتوں کے ہا تھوں میں کھیل رہی ہے یا یہ کہ وہ ملک کی ترقی کی دشمن ہے ،وغیرہ وغیرہ۔اس کے بر عکس ،ہم اپو زیشن کایہ جمہوری حق سمجھتے ہیں کہ اپنے مطا لبات اور اپنے موقف کے حق میں،عوام کو متحرک کرنے کے لیے ،وہ، ریلیاں نکالے ،جلسے کرے،یا ہڑتال کی کال دے۔ایک جمہوری معاشرے میں اس کی قطعا ً نفی نہیں کی جا سکتی۔یہ الگ بات ہے کہ ہڑتال کی کال کا یہ وقت منا سب تھا یا نہیں، اور یہ کہ عوام نے اس کال پر مثبت رد ِ عمل دیا ہے یا منفی۔ یہ سوچنا ایم ایم اے کے قائدین کا کام ہے کہ اس کال سے انھیں کو ئی سیاسی فوائد حاصل ہو ئے ہیں یا نہیں ، یا یہ کہ اس طرح کا انتہائی قدم اُٹھا لینے کے بعد اب کیاکیا جائے،لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن کے اس انتہائی قدم پر عوام نے اپنا رد عمل دے کر یہ ضرور ثابت کیا ہے کہ سب اچھا کی جو رٹ ایوان اقتدار سے لگا ئی جا رہی تھی ،اس میں مکمل صداقت نہیں ہے۔تہ آب،شدید اضطراب پا یا جا تا ہے۔

            بلا شبہ ہڑتال کرنا،اپوزیشن کا ایک جمہوری حق ہے،لیکن،اس سے شہری زندگی متاثرہوتی ہے۔ لوگوں کو بلا وجہ شدید پریشا نیوں کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔اس لیے اس حق کو ،جمہوری معا شروں میں ، احتجاج کی انتہائی شکل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور عمو ماً یہ اپنے مقاصد کے حتمی نتائج کے حصول تک جاری رہتی ہے۔لیکن یہاں ایساکچھ نہیں ہوا ہے،کیوں؟ ہمیں تو یہ ساری exercise سعی لا حاصل دکھا ئی دیتی ہے کیونکہ اس احتجاجی تحریک کا نتیجہ تو یہ ہو نا چاہیے تھاکہ موجودہ حکومت فی الفور ختم ہوجاتی اور وطن عزیز میں فوری طور پر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرا ئے جاتے ،لیکن بد قسمتی سے یہ بات نہ تو ایم ایم اے کو اور نہ ہی حکومت کو پسند ہے،تو پھر آ خر سیاسی بخار کو اس حد تک بڑھانے کا مطلب کیا ہے؟؟حکومت تو شاید بے نظیر سے معاہدے کی صورت میں فوری انتخابات پر تیار ہو ہی جائے ،لیکن ایم ایم اے تو، بوجوہ ،اس پر بھی راضی نہیں ہے ، تو پھر،آخرہڑتال ایسا انتہائی اقدام کیوں ؟؟کیایہ صرف،اپنے کارکنان کو پلٹنا ،جھپٹنا اور جھپٹ کر پلٹنے کادرس دینا تھا؟یا اپنی طاقت کے مظاہرے کی کوشش تھی!!

            یہاں ہم سیاسی بخار میں اس اضافے کے ایک دو اور عوامل کا تذکرہ بھی کرناچاہیں گے۔مارچ کے آغاز میں سندھ میں اپنے مطالبات کے حق میں ایک بہت بڑی ریلی کاآغاز کیا گیا۔یہ پورے ایک ماہ کا پروگرام تھاجس میں، اندرون سندھ سے کم و بیش دو لاکھ انسانوں نے شرکت کی۔ مختلف اضلاع سے اکٹھے ہو کر،سکھر سے کراچی تک ان لوگوں نے،مختلف مراحل میں مارچ کیا۔یہ لوگ،رسول بخش پلیجو کی قیادت میں ، عوامی تحریک(طاہرالقادری صاحب والی نہیں ) کے پلیٹ فارم سے متحرک تھے اور ان کے نمایاں مطالبات میں سے کالا باغ ڈیم کے منصوبے کو ترک کرنا اورگریٹر تھل کینال کو نہ نکالنا، شامل تھا۔یہ ایک پر امن اور انتہائی منظم احتجاج تھا۔مارچ ہی کے آ خری ہفتے میں اپنے مطالبات کے حق میں ٹرانسپورٹرز نے ایک مو ثر احتجاج کیا ۔کم از کم صوبہ سرحد میں تین دن تک پہیہ جام رہا ۔کراچی اور صوبہ سندھ میں بھی اسٹرائیک observe کی گئی ۔صوبہ پنجاب میں بھی ٹرانسپورٹرز نے اپنے احتجاجی پرو گرام کا اعلان کر رکھا تھا ،البتہ انھیں پہیہ جام کرنے سے باز رکھنے کے لیے پنجاب حکومت نے فوری طور پر بین الاضلاعی اور لوکل روٹس پر کرایوں میں اضا فے کی اجازت دے دی۔ادھربلوچستان کی سیاسی فضا بھی ایک چیستان کا روپ دھار چکی ہے اوروہاں بھی آتشی لاوا بہہ رہا ہے جس نے ملکی سیاست کو ایک عرصے سے گرما رکھا ہے۔انھی دنوں،پونم نے بھی عوام کو ہڑتال کی کال دی تھی۔اس کال پر بھی وطن عزیز کے ایک بہت بڑے طبقے نے لبیک کہا ، خصوصاً سرحد ، سندھ اور بلو چستان میں اس کال پر مثبت رد ِ عمل دیکھنے میں آ یا۔

            اس سیاسی منظر نامے سے کیا ظاہر ہو رہا ہے۔؟

             کیا حکومتی ایوانوں کے لیے ،اس پہیہ جام ہڑتال کی کامیابی، ان کے بقول جزوی ہی سہی، میں کوئی سیاسی سبق ہے۔؟

            مقتدر قوتوں کویہ سو چناچاہیے کہ ،مختلف سیاسی قوتوں کے منظم کردہ، ان احتجاجی پروگراموں میں شریک ہو کر عوام کیا کہنا چاہ رہی ہے۔؟یہ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے کہ متعدد حوالوں سے موجودہ حکومتی پالیسیوں کے خلاف،ملک کے وسیع حلقوں میں شدیدبے چینی پا ئی جاتی ہے اور لوگ حالات کی اس تصویر کشی سے متفق نہیں ہیں جو دِن رات صدر مشرف اوران کے نائبین کی طرف سے بیان کی جا رہی ہے۔ہمارے نزدیک ،ہڑتال میں حصہ لے کر،عوام نے کمر توڑ مہنگائی ،بے روز گاری اور معاشی و سماجی نا ہمواریوں اور خارجی امور میں امریکہ کی جھولی میں مکمل طور پر گر جانے کے عمل کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایاہے۔ایک عام شہری ،جس طرح مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہے اور ہمارے ہاں تعلیم،علاج روزگار اور بنیادی انسانی حقوق کی جتنی ابتری ہے،اس کو دیکھتے ہوئے،کوئی بھی ذی ہوش یہ اندازہ لگانے میں حق بجانب ہے کہ یہ ملک خونی انقلاب کے دھانے پر کھڑا ہے۔اشیائے صرف عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو تی جا رہی ہیں۔ ایک طرف بے کاروں کے غول کے غول ہیں جوآوارہ پھر رہے ہیں اور دوسری طرف ،کاروں کے نت نئے ماڈل ہیں جو بیرون ملک سے منگوائے جا رہے ہیں۔ایک طرف غریب کا بچہ نان جویں کو ترس رہا ہے تو دوسری طرف کتے دودھ اور مکھن پرپل رہے ہیں،تو ایسے میں کوئی کیسے توقع کر سکتا ہے کہ عوام احتجاج کی کسی اپیل پرکان نہیں دھریں گے۔اس لیے ہماری اپنے حکام سے درخواست ہو گی کہ وہ عوام کی مشکلات کو کم کرنے کا سوچیں ،کم از کم ،دال روٹی کو تو عام آ دمی کی پہنچ تک رہنے دیں۔حکومت اپنی طاقت کوسیاست دانوں کے خلاف آزمانے کے بجائے ذخیرہ اندوزوں اور نا جائز منا فع خوروں پر استعمال کرے اور غریبوں کا سہولت سے جینا یقینی بنائے۔

دوستی کی بس

            اٹھاون برس بعدبالآخر برف پگھلی ، راستے کھلے ، زنجیریں ٹوٹیں اور پل اور پھاٹک کھول دیے گئے اور پل کے اس پار اور اُس پار اپنے اپنوں کے گلے لگے وہ زنجیریں جو انسانیت کی تذلیل کی علامت تھیں ،وہ پل ، وہ پھاٹک جو انسانی رشتوں کے درمیان حائل اور کتنے دلوں کو گھائل کرنے کا باعث تھے ان کے ٹوٹنے اور کھلنے ہی میں انسانیت کی عظمت تھی۔ اس دور میں جب کہ دنیا گلوبل ولیج کی طرف بڑھ رہی ہے ، دیواریں گر رہی ہیں اور یورپ تو مکمل ہم آہنگی اور سرحدوں کی خونی لکیروں کو امن و آشتی اور پیار و محبت کی راہوں میں بدلنے کی سعی کر رہا ہے ایسے میں برصغیر کے مقتد ر طبقوں کو اس کا احساس ہونا کہ یہاں بھی انسان ہی بستے ہیں ،انسان ہی جیتے ہیں اور انسان بہر حال انسان ہی ہوتے ہیں۔ایک خوش آیند اقدام ہے ۔اس طرح کے اقدامات کی ستائش اور حوصلہ افزائی ہماری ذمہ داری ہے۔ہم ہر اس قدم کو سراہیں گے جو انسانوں کو قریب لانے کی طرف بڑھے اور ہر اس ہاتھ کو سلام کر یں گے جو اولاد آدم کے درمیان مختلف ناموں سے اٹھائی گئی نفرت کی دیواریں کو منہدم کرنے کے لیے اٹھے اور ہر اس کاوش کے حق میں آواز اٹھائیں گے جو انسانوں میں انسانیت کو پروان چڑھانے کے لیے کی جائے ۔ سارے انسان آدم کی اولاد ہیں کسی کو کسی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں سوائے نیکی اور پرہیز گاری کے۔ اس روئے زمین پر سارے انسانوں کا برابر کا حق ہے۔اور اس حق کو بازیاب کرانے کی جو بھی، جہاں بھی سعی کرے گا ہم اس کے ساتھ ہیں چاہے اس کا نام پرویز مشرف ہویا من موہن سنگھ ہو یاکچھ اور (اخلاص البتہ شرط ہے)۔ خوشبو ناموں سے نہیں کاموں سے پھیلتی ہے اور نام تو تاریخ کی گرد میں خود بھی گرد بن جاتے ہیں کام البتہ باقی رہتے ہیں۔ہندستان اور پاکستان کے اہل اقتدار کے لیے سنہری موقع ہے کہ شاید پھر یہ ہاتھ نہ آئے کہ اسوقت دنیا کی فضا ایسے کاموں کے لیے موید اور مدد گارہے۔