عمر بن عبدالعزیزؒ

مصنف : آباد شاہ پوری

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : نومبر 2006

قسط ۔۱

             ‘‘اگر یسوع مسیح کے بعد کو ئی شخص مردوں میں زندگی کی روح پھونک سکتا تو میں ان کے متعلق گمان کرتا کہ وہ یہ اعجاز دکھا سکتے ہیں ۔ مجھے وہ راہب پسند نہیں جو علائق دنیا سے کٹ کر کسی صومعہ میں خلوت گزیں ہو جاتا ہے اور خدا کی عبادت میں زندگی کاٹ دیتا ہے ، مجھے تو اس راہب پر حیرت ہوتی تھی کہ دنیا اس کے قدموں کے نیچے تھی مگر پھر بھی راہبانہ زندگی بسر کرتا تھا۔’’

             یہ ہے وہ خراج تحسین جو بزنطینی شہنشاہ نے خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیز کے انتقال کی خبر سن کر انہیں ادا کیا ۔ تاریخ کہتی ہے کہ شہنشاہ کی زبان پر یہ کلمات جاری تھے اور اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے ۔ یہ اس شخص کی عقیدت اور رنج وتاسف کی کیفیت تھی جس کی اس سلطنت کے ساتھ ایک مدت سے کشمکش جاری تھی ، عمر بن عبدالعزیز جس کے فرمانروا تھے ۔پھر اس امت کے غم وکرب کا اندازہ کون کر سکتا ہے جس نے ملوکیت کی امڈتی پھیلتی ہوئی تاریک رات میں ابوبکرؓ و عمرؓ کے عہد درخشاں کو طلوع ہوتے دیکھا ، جو جبر و استبداد کی چکی میں پس رہی تھی اور جس نے اس مرد حق کے طفیل اس عذاب الیم سے نجات پائی بے شک اسے مردوں کو زندہ کرنے کی قدرت نہ تھی مگر اس کا یہ اعجاز کم نہ تھا کہ اس نے زندگی کے قالب میں روح تازہ پھونکی ، چمن اسلام کو جو ظلم اور طغیان و عدوان کی آندھیوں سے پامال ہو رہا تھا نوید بہار سنائی اور اسلامی قوانین کو زندہ کیا ۔

 ٭٭٭

             عمر بن عبدالعزیز ؒ نے اپنے وقت کے حکمران خاندان میں آنکھیں کھولیں ، عیش و تتعم کے گہوارے میں پرورش پائی اور ایسے عالم میں پروان چڑھے جبکہ ملوکیت کی جڑیں گہری ہو چکی تھیں اور ان کا خاندان قیصر وکسری کے رنگ میں پوری طرح رنگ چکا تھا ۔ خود کہتے ہیں جامہ زیبی میں میراکوئی ہمسر نہ تھا ۔ نفاست طبع کا یہ حال تھا کہ جس لباس کو ایک مرتبہ نگاہیں چھو لیتیں اسے دوبارہ زیب تن نہ کرتے ۔ مدینہ منورہ کے گورنر مقرر ہوئے تو تیس اونٹوں پر صرف ان کا ذاتی سامان لادا گیا تھا ۔ چلتے تو انداز تبخر کے ساتھ ، سفر کرتے تو شان وشکوہ کو ہم رکاب کیے ہوئے ۔ لیکن پھر ایک ایسا واقعہ رونما ہوا کہ ان کی زندگی کا رخ ہی بدل گیا ۔ اس وقت وہ مدینہ کے گورنر تھے ۔ ولید بن عبدالملک کے حکم پر انہوں نے عبداللہ بن زبیر کے صاحبزادے خبیب کواپنے سامنے اس حال میں کوڑے لگوائے کہ ان کا جسم بخار میں پھنک رہا تھا ۔ کڑکڑاتے جاڑوں کا موسم تھا اور صبح کا وقت ۔ عمر بن عبدالعزیز نے کوڑے لگوانے ہی پر بس نہ کیا ، حکم دیا کہ ٹھنڈے یخ پانی سے بھری مشک ان کے سر پر انڈیل دی جائے اور پھر دن بھر مسجد کے دروازے پر کھڑا رکھا ۔ خبیب ان اذیتوں کی تاب نہ لا سکے ، بے ہوش کر گر پڑے اور ان پر نزع کا عالم طاری ہو گیا او رپھر اسی حال میں انہیں ان کے خاندان والوں کے پاس پہنچا دیا گیا ۔ عمر یہ صریح ظلم کرنے کو تو کر بیٹھے مگر پھر آخرت کی باز پرس کے خوف نے ان کو آلیا ۔ انہوں نے ایک اصفہانی غلام کو یہ دیکھنے کے لیے بھیجا کہ خبیب زندہ ہیں یا مر گئے ۔ اسے دیکھ کر عروہ بن زبیرؓ کے صاحبزادے عبداللہ بھڑک اٹھے اور بولے کیا تمہارے آقا کو ابھی اس مظلوم کی موت پر شک ہے ؟ پھر اپنے عزیزوں سے جو خبیب کی میت کے پاس بیٹھے تھے کہا : اسے خبیب کا منہ دکھا دو تاکہ گورنر کو یقین آجائے کہ اس کے ظلم کا شکار اپنے خون کا دعوی لیے ، اپنے رب کے پاس پہنچ چکا ہے خبیب کا منہ دیکھتے ہی غلام پلٹا، دار مروان …… گورنر ہاؤس …… پہنچا اور عمر بن عبدالعزیز کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ عمر اضطراب کے بھنور میں گرفتار تھے ، کبھی اٹھتے اور کبھی بیٹھ جاتے اور کبھی بے قراری سے ٹہلنے لگتے ۔ ‘‘پیچھے کیا چھوڑ آئے ہو ؟’’ عمر نے غلام کو دیکھ کر افسردہ لہجے میں پوچھا ۔ ‘‘وہ شخص مر چکا ہے ’’ غلام نے کہا ۔ ایک بجلی تھی جو عمر بن عبدالعزیز پر گر گئی ، جسم لرزنے لگا ، قدم لڑکھڑائے اور گر پڑے ۔ پھر سر اٹھایا اور زبان پر انا للہ وانا الیہ راجعون جاری ہو گیا ۔ اپنے کیے پر ندامت او رآخرت میں جوابدہی کا خوف واحساس عمر کے اعصاب او رذہن وقلب پر کچھ ا س طرح مسلط ہوا کہ گورنری سے استعفی دے دیا اور حکومت اور خاندانی سیاست کے جھمیلوں سے کنارہ کش ہو گئے ۔ تاہم شہزادگی کی خوبو پھر بھی باقی رہی ۔ تخت خلافت پر قدم رکھا تو اس دور کی باقیات بھی ختم ہو گئیں اور ان کے شب وروز میں ا یسا انقلاب آگیا کہ بڑے بڑے راہبوں ، عابدوں اور زاہدوں کی داستانیں گرد ہو جائیں ۔ اقتدار کا نشہ بڑا ہی تند ہوتا ہے ۔ بڑے بڑے نیک خو اور فرشتہ خصلت انسان بہک جاتے ہیں اور جو پہلے ہی غلو اور نخوت وغرور کے بادہ تندوتیز میں سرشار ہوتے ہیں ان میں سرمستی وخود سری دوآتشہ ہو جاتی ہے ، لیکن یہاں یہ عجیب نظارہ دیکھنے میں آتا ہے کہ تخت خلافت پر جلوہ افروز ہوتے ہی خود پسندی ، تکبروغرور اور عیش واقتدار کا رہا سہا خمار بھی کافور ہو جاتا ہے ۔ ان کی زندگی کا منہاج اور اخلاق واطوار کا قالب بدل جاتا ہے ، مسجد وابق (سلیمان بن عبدالملک سرحدی شہر وابق میں فوت ہوا تھا اوروہیں عمر بن عبدالعزیز کے ہاتھ پر بیعت کی گئی تھی ) میں شاہی خاندان کے ارکان سے بیعت لے کر اٹھتے ہیں تو ماضی سے اس طرح دامن جھاڑ کر اٹھتے ہیں کہ پھر مرتے دم تک ان کی زندگی پر اس کا پر تو پڑنے نہیں پاتا۔

             پہلے وہ عمر بن عبدالعزیز تھے ، اب وہ مورخ اسلام علامہ شمس الدین ذھبی کے الفاظ میں عدل وانصاف اور طریق حکمرانی میں عمر بن الخطابؓ ، زہد میں حسن بصریؒ اور علم میں امام زہریؒ بن جاتے ہیں ۔ بیعت کے بعد شاہی سواریاں ان کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں تو انہیں یہ کہہ کر واپس کر دیتے ہیں کہ میرے لیے میرا خچر کافی ہے پھر خود ہجوم کو چیرتے ہوئے مسجد سے باہر آتے ہیں اور اپنا خچر تلاش کر کے اس پر سوار ہوتے ہیں ۔ باڈی گارڈ کا افسر اعلی برچھا لیے آگے آگے چلتا ہے تو اس کو ہٹا دیتے ہیں کہ میں بھی عام مسلمانوں کی طرح ایک مسلمان ہوں پھر یہ امتیاز کیسا؟ اس طرح عظمت وشوکت اور عام شہریوں سے بلند تر مخلوق ہونے کے ان تمام مظاہر کو پاؤں تلے روند ڈالتے ہیں جو ان کے پیش رو خلفا نے اپنے لیے وضع کیے تھے اور جو آج کی مہذب دنیا میں بھی پروٹوکول کی حسین وجمیل اصطلاح کے پردے میں پائے جاتے ہیں بے فکری جس کی گھٹی میں پڑی تھی او رتشویش وتردد جس کے دل کے تاروں کو کبھی چھو کر نہ گزرے تھے اسے تخت خلافت پر قدم رکھتے ہی فکر واضطراب اس طرح آن گھیرتے ہیں کہ چہرے کے خطوط سے انہیں صاف پڑھا جا سکتا ہے۔ باندی کہتی ہے آپ کچھ فکر مند نظر آتے ہیں ۔ فرماتے ہیں کیا یہ تشویش ناک بات نہیں کہ مشرق ومغرب میں پھیلی ہوئی امت محمدیہ کے ایک ایک فردکا بوجھ میری گردن پر ڈال دیا گیا ہے اور میرا فرض ہے کہ کسی مطالبے اور اطلاع کے بغیر اس کا حق اداکروں ۔

             قصر خلافت جو قیصر وکسری کے محلات پر چشمک زدن تھا اس میں داخل ہوتے ہیں تو در ودیوار پر لٹکے ہوئے پردے اتروا دیتے ہیں کہ دیواروں سے زیادہ انسانوں کے جسم ان کے حقدار ہیں ۔ جھاڑ فانوس اور قرش وقروش بکوا کر ان کی قیمت بیت المال میں داخل کروا دیتے ہیں ۔ خود اپنے گھر سے ماضی کا ایک ایک نقش مٹا ڈالتے ہیں ۔ خدم وحشم عطر ولباس ، زیب و آرائش او رجاہ وجلال کا سب سامان فروخت کر کے خدا کی راہ میں دے دیتے ہیں ۔ غلاموں کو اندھوں ، اپاہجوں اور یتیم بچوں میں تقسیم کر دیتے ہیں کہ وہ ان کی خدمت کے زیادہ محتاج ہیں …… دیکھنے والا دیکھتا ہے کہ وہی عمر بن عبدالعزیز جن کا جامہ زیبی میں کوئی حریف نہ تھا اور دس دینار کی قیمت کا کپڑا جن کی طبیعت پر گراں گزرتا تھا ، نہایت سادہ اور معمولی کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور ان میں بھی کئی کئی پیوند لگے ہیں اور وہ جو ہر روز نیا لباس یہ سمجھ کر بدلتے تھے کہ لوگوں کی نگاہوں نے اسے چھو کر میلا کر دیا ہے جب مرض الموت میں مبتلا ہوتے ہیں تو ایک میلی سی قمیض بدن پر ہوتی ہے ۔ مسلمہ بن عبدالملک ان کی بیوی اور اپنی بہن فاطمہ سے کہتے ہیں : امیر المومنین کی قمیض دھو ڈالو ، لوگ عیادت کو آتے ہیں ۔ فاطمہ کی آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں اور وہ بھرائی ہوئی آواز میں کہتی ہیں : بھائی اس کے سوا آپ کے پاس اور کوئی قمیض ہی نہیں ہے ۔

 ٭٭٭

             اہل وعیال کتنے پیارے ہوتے ہیں ۔ اکثر انہی کی محبت کے جائز وناجائز تقاضے انسان کو بے راہروی پر مجبور کر دیتے ہیں ، مگر عمر نے انہیں اپنے اختیار کردہ منہاج زندگی کے درمیان کبھی حائل نہ ہونے دیا ۔ ان کی بیوی فاطمہ ، خلیفہ عبدالملک کی صاحبزادی تھیں ، جس نازونعمت سے پرورش پائی ہو گی اس کا تصور کچھ دشوار نہیں ۔ شوہر کے گھر آئیں تو یہاں بھی عیش وتنعم اور امارت وشوکت کی فضا تھی۔ اسی فضا میں عمر کے ا کثر بچوں نے آنکھ کھولی اور پروان چڑھے ۔ نازونعمت کی گود میں پلے ہوئے اہل و عیال کو یک لخت فقر و فاقہ ، محرومی اور تنگدستی کے سپرد کر دینا کوئی کھیل نہیں ۔ پھر یہ محرومی اگر گردش روزگار کے ہاتھوں سے ہو تو انسان صبر کی سل سینے پر رکھ لیتا ہے کہ چارہ کار یہی ہوتا ہے ، لیکن جب بیوی او ربچے دیکھ رہے ہوں کہ پوری مملکت کے خزانے اور وسائل ان کے شوہر اور باپ کے ہاتھ میں ہیں اور پھر عیش و عشرت تو ایک طرف ،وہ اچھا کھانے اور اچھا پہننے کو بھی ترس گئے ہیں ، تو ان کے دلوں پر کیا گزرتی ہو گی ؟ مگر عمر بن عبدالعزیز نے سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اسے گوارا کیا ۔ مسلمانوں کا بیت المال جسے ان کے پیشرو خلفا نے اپنی ذاتی ملکیت سمجھ لیا تھا اور جس طرح چاہتے تھے بے دریغ تصرف میں لاتے تھے ، جس پر نہ صرف ان کی اپنی عشرت کی محفلیں گرم ہوتی تھیں ، بلکہ بھانڈ مسخرے اور گویے بھی پلتے تھے ، اس کو عمر بن عبدالعزیز نے اپنے اہل وعیال کے لیے گویا حرام قرار دے دیا تھا ، حتی کہ مشاہرے کا بار بھی آپ نے بیت المال پر نہ ڈالا ۔ ذاتی جائیداد کی آمدنی ہی پر جو وفات کے وقت دو سو دینار سالانہ رہ گئی تھی ، تنگی ترشی سے گزر بسر کرتے تھے ۔ پھر اس کا اکثر حصہ بسا اوقات بیت المال میں داخل کرا دیتے تھے ۔ ایسی حالت میں باپ اپنے جگر گوشوں کے جذبات واحساسات سے بے خبر نہیں رہ سکتا تھا ، چنانچہ وفات پانے لگے ، توبچوں کو بلایا ، ان کی طرف اشک بھری آنکھوں سے دیکھا اور کہا : ‘‘میری جان ان نوجوانوں پر قربان جن کو میں نے محتاج ومفلس چھوڑا ہے ، لیکن خدا کا شکر ہے کہ میں نے ان کو اچھی حالت میں چھوڑا۔ لڑکو ! تم کسی عرب یا کسی ذمی سے نہ ملو گے جس پر تمہارا حق نہ ہو گا ۔ لڑکو ! تمہارے باپ کو دو باتوں میں سے ایک کا اختیار تھا ایک یہ کہ تم دولت کے گہوارے میں جھولو اور وہ جہنم میں داخل ہو جائے یا تم احتیاج کی زندگی بسر کرو اور وہ جنت میں جائے ۔ اس نے تمہارے لیے دولت کے ڈھیر لگانے اور خود آگ میں جلنے کے بجائے تمہیں محتاج رکھنا پسند کیا ۔ میرے بچو ! اللہ تمہارا حافظ وپاسباں ہے ۔ دنیا کی دولت وشوکت آنی جانی ہے اور آخرت کی زندگی ناپیدا کنار ہے ۔ اس آخرت کی زندگی میں کام آنے والے لعل وگہر جمع کرنے کی فکر کرو ، تمہارا پروردگار تمہیں کبھی ضائع نہیں کرے گا ۔’’

 ٭٭٭

             صلاح وخیر تو ان کے خمیر میں گندھی گئی تھی مگر یہ سونا اس انقلاب کی بھٹی میں کندن بن گیا ورع وتقوی ، زہد و قناعت ، عزیمت و توکل ، خشیت و تواضع ، رفق و ملائمت ، امانت و دیانت ، طاعت و عبادت اور وہ اخلاق فاضلہ جو صلحا اور اتقیا کا نشان عظمت ہوتے ہیں ، عمر بن عبدالعزیز ان کا پیکر مجسم تھے ۔ خشیت الہی ، قیامت کا خوف اور آخرت کی جوابدہی کا احساس ان سب پر غالب تھا دن میں کاروبار خلافت اسی احساس کے ساتھ سر انجام دیتے تھے اور رات کو یہی احساس انہیں تڑپاتا اور رلاتا تھا ۔ نماز عشا کے بعد عموما ًاپنی مسجد میں بیٹھ جاتے ۔ ہاتھ اپنے آقا و مولا کے حضور اٹھ جاتے اور پھر امت کی فکر میں قلب و جگر کا خون آنسو بن کر آنکھوں سے بہنے لگتا ، یہاں تک کہ آنکھ لگ جاتی ۔ بیدارہوتے تو تضرع اور اشک فشانی کا سلسلہ پھر جاری ہو جاتا ، حتی کہ پھر سو جاتے رات اسی زاری و تضرع میں کٹ جاتی ۔

            امت کے بارے میں حکمران کی حیثیت سے ان پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں ، ان کا احساس انہیں ہر دم تڑپائے رکھتا ۔ گورنری کے زمانے میں وقت کے حکمران کے احکام کی تعمیل میں ان سے جو زیادتیاں سرزد ہوئیں ، ان کے تصور سے وہ اکثر بے چین ہو جاتے ۔ خبیب کی مظلومانہ موت تو ان کی زندگی کا روگ بن گئی تھی ۔ عمر خبیب کے اہل وعیال کے ساتھ ہر چند حسن سلوک سے پیش آتے ان کی مالی مدد فرماتے یہاں تک کہ لوگ کہنے لگے عمر ، خبیب کے خون کی دیت ادا کر رہے ہیں ، لیکن پھر بھی دل کو سکون نہ آتا ۔ جب بھی خبیب پر کوڑوں کی بارش اور کڑکڑاتی سردی میں خون منجمد کر دینے والا یخ پانی ان کے سر پر انڈیلنے کا منظر نگاہوں میں پھر جاتا ، تڑپ تڑپ اٹھتے ۔ اس دور کے بڑے بڑے صالحین جو ان کے مشیر تھے ان کے نفاذ حق میں جسم وجاں کو گھلا دینے والی تگ و دو کا ذکر کر کے کہتے کہ اللہ آپ کو ثواب و خیر اور جنت سے نوازے گا تو لمبی سانس بھر کر فرماتے خبیب اس راستے میں حائل ہو گیا تو کیا ہو گا ؟                        قرآن مجید کی جن آیات میں باز پرس اور احوال قیامت کا ذکر ہے ان کی تلاوت کرتے تو وارفتگی کا عالم طاری ہو جاتا۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے اور ماہی بے آب کی طرح تڑپ کر اس طرح گرتے کہ گمان ہوتا دم توڑ چکے ہیں۔ ایک رات سورہ القارعہ کی آیت یوم یکون الناس کالفر اش المبثوث وتکون الجبال کالعھن المنفوش (جس دن لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی صورت میں ہوں گے اور پہاڑ دھنکی ہوئی اون کی مانند ہوں گے ) تلاوت کرتے ہوئے حالت غیر ہو گئی اور ساری رات تڑپتے اور بلکتے گزر گئی ۔ بار بار فرماتے : ہائے وہ دن جب لوگ بکھرے ہوئے پروانوں اور پہاڑ دھنکی ہوئی اون کی طرح ہوں گے ۔

 ٭٭٭

 (2)

            یہ تو اس مرد صالح کی شخصی زندگی کی جھلک تھی ۔ ان کا اصل کارنامہ حیات وہ انقلاب ہے جو انہوں نے مملکت کی اجتماعی زندگی میں برپا کیا ۔ بنو امیہ نے اسلام کے جمہوری و شورائی طرز حکومت ہی کو نہیں بدلا تھا بلکہ ایک مرتبہ اس قلعے میں شگاف ڈالا تو وہ سارے مفاسد در آئے جو شخصی اقتدار اور ملوکیت کا خاصا ہوتے ہیں ۔ ان مفاسد سے مسلمانوں کا دین ، اخلاق ، معاشرت ، معیشت ، تمدن ، سیاست الغرض کوئی شعبہ زندگی نہ بچ سکا ۔ عمر بن عبدالعزیز نے زمام خلافت ہاتھ میں لیتے ہی مملکت کے پورے قالب کو بدلنے کا عزم کر لیا ۔ انہیں مرنے والے خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے نامزد کیا تھا ۔ اس کی اپنی اولاد چھوٹی تھی اور بار سلطنت اٹھانے کے ناقابل ۔ ایک بڑا لڑکا داؤد تھا بھی تو وہ سرحدوں پر جنگ لڑنے گیا ہوا تھا اور اس کی کچھ خبر نہ مل رہی تھی ، کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں ۔ سلیمان عمر کی صلاحیتوں اور کردار سے متاثر تھا ۔ پھر اس کے معتمدو زیر رجاء بن حیوۃ نے بھی اسے عمر بن عبدالعزیز کو اپنا جانشین بنانے کا مشورہ دیا تھا ۔ رجاء عبدالملک بن مروان کے زمانے سے دارالحکومت میں اہم مناصب پر فائز چلے آتے تھے ، اموی شہزادوں کی نگرانی اور تربیت کا کام بھی انہی کے سپرد تھا ، چنانچہ اموی خاندان کے بوڑھے اور جوان ان کا احترام کیا کرتے تھے ۔ سلیمان تو انہیں بے حد مانتا تھا کہ ولید بن عبدالملک نے اسے ولی عہدی سے معزول کر کے اپنے بیٹے کو ولی عہد بنانا چاہا تو رجاء ان معدودے چند افراد میں تھے جنہوں نے اس نازک وقت میں اس کا ساتھ دیا تھا ۔ چنانچہ جب انہوں نے عمر بن عبدالعزیز کو خلیفہ بنانے کا مشورہ دیا تو سلیمان نے قدرے تامل کے بعد قبول کر لیا ۔ رجاء نے اموی خاندان ہی کے نہیں وقت کے ایک انتہائی باصلاحیت شخص کو حکومت دلوائی تھی مگر چونکہ اس میں مسلمانوں کی رائے کو دخل نہیں تھا اس لیے عمر بن عبدالعزیز اس طریق نامزدگی کو غلط سمجھتے تھے ۔ پھر وہ خلافت کی گراں قدر ذمہ داریوں کو بھی خوب جانتے تھے اس لیے انہوں نے سب سے پہلے عام مسلمانوں کو جمع کر کے اعلان کیا کہ میری خواہش اور عام مسلمانوں کی رائے کے بغیر مجھ پر بار خلافت ڈال دیا گیا ہے ۔ اس لیے میں اپنی اس بیعت کے طوق کو جو تمہاری گردن میں ہے از خود اتارے دیتا ہوں ، اب تم آزاد ہو جسے چاہو خلیفہ منتخب کرو۔

             لوگوں نے یہ اعلان یقینا حیرت سے سنا ہو گا ۔فی الواقع ان کے لیے یہ ایک تحیر خیز بات تھی اور ظاہر ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر اس امامت کا امین اور مستحق اور کون ہو سکتا تھا ۔ جو اس بار عظیم کو نشاط ومسرت کے ترانے الاپ کر اٹھانے کے بجائے لرزاں و ترساں عام مسلمانوں کے حق انتخاب کے حوالے کر رہا تھا ،چنانچہ مجمع بیک زبان پکار اٹھا ، ہم نے آپ کو اپنا خلیفہ منتخب کیا ، ہم آپ کی خلافت پر راضی ہیں ۔

 ٭٭٭

            انتخاب عام کے بعد عمر بن عبدالعزیز نے جو تقریر کی وہ گویا اس پالیسی کا اعلان تھا جو ان کی حکومت اختیار کرنے والی تھی۔ عمر بن عبدالعزیز نے سابقہ ساری باتوں کو کالعدم قرار دے کر صاف صاف کہہ دیا کہ اللہ نے جو چیز حلال کر دی ہے وہ قیامت تک کے لیے حلال کر دی ہے اور جو حرام کردی ہے وہ قیامت تک کے لیے حرام ہی رہے گی ۔ میں اپنی جانب سے کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں بلکہ میرا کام احکام الہی کو نافذ کرنا ہے ۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اللہ کی نافرمانی کے کاموں میں اس کی اطاعت کی جائے ۔ میں تمہارے ہی جیسا ایک معمولی آدمی ہوں ۔ اگر کوئی فرق وامتیاز ہے تو اتنا کہ اللہ نے مجھ پر ایک بھاری ذمہ داری ڈال دی ہے ۔ جب تک میں اللہ کی اطاعت کروں اس وقت تک میری اطاعت کرو اور جب میں اللہ کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت فرض نہیں ۔ یہ ٹھیک وہی پالیسی تھی جس پر حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کار بند رہے تھے ۔ اور فی الحقیقت عمر انہی صاحبین کے دور خیر ورشد کو واپس لانے کا تہیہ کر چکے تھے۔ چنانچہ انہوں نے دور سابق کی ایک ایک غلطی کی اصلاح کی ، ایک ایک فساد کا دروازہ بند کیا اور اجتماعی زندگی میں پیدا ہونے والی ایک ایک قباحت اور برائی کا انسداد کیا ۔

            زمام خلافت سنبھالتے کے بعد عمر بن عبدالعزیز نے جو پہلا کام انجام دیا وہ ان اموال واملاک کی واپسی تھی جو ان کے پیش رو خلفا ، ان کے گورنروں ، اعلی فوجی افسروں اور ان کے ہالیوں موالیوں نے ظلم وجور سے غصب کر لی تھیں۔ وابق سے دارالخلافہ (دمشق) پہنچتے ہی ان جاگیروں اور جائیدادوں کے تمام وثائق اور دستاویزات پیش کرنے کا حکم دیا ۔ جلد ہی ان کے سامنے کاغذات کا ایک ڈھیر لگ گیا ۔ پھر منادی کے ذر یعہ عامتہ المسلمین کو مسجد میں جمع کیا ۔ عمر منبر پر چڑھے تو لوگوں کو جیسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا ۔ ان کے جسم پر وہ پہلی بار معمولی عام سے کپڑے دیکھ رہے تھے ۔ رجاء بن حیوۃ کے بقول قمیض ، پاجامہ ، قبا ، عمامہ ، ٹوپی اور جوتے سب کے سب بارہ درہم سے زیادہ کے نہ تھے ۔ وہ ششدر ہو کر رہ گئے اور پھر عمر کی ابھرتی ہوئی آواز نے ان کے تحیر میں مزید اضافہ کر دیا ۔ وہ حمد وثنا کے بعد کہہ رہے تھے :

             ‘‘ ان لوگوں (سابق خلفا) نے ہمیں عطیات دیے حالانکہ نہ ہم ان کے لینے کے حقدار تھے اور نہ انہیں ان غلط بخشیوں کا کوئی حق تھا او رچونکہ میرا محاسب اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ہے اس لیے میں پہل اپنے آپ سے اور اپنے خاندان سے کرتا ہوں ۔’’

             عمر نے اپنے سیکرٹری مزاحم کی طرف دیکھا اور کہا : مزاحم! وثائق پڑھتے جاؤ اور مجھے دیتے جاؤ ۔’’ مزاحم ایک ایک وثیقہ نکالتے ، اسے بلند آواز سے پڑھتے اور امیر المومنین کو دے دیتے اور عمر قینچی سے اس کے پرزے پرزے کر دیتے ۔ خاندان عمر کے بعد بنو مروان اور شاہی خاندان (بنو امیہ) کے شہزادوں اور شہزادیوں کے وثائق اسی طرح قینچی کی نذر ہوئے۔ پھر بنو امیہ کے حامی امرا ، اعلی فوجی افسروں ، عرب سرداروں اور اعیان سلطنت کے وثائق کا یہی حشر ہوا ۔ یہ سلسلہ جو صبح کے وقت شروع ہوا تھا ظہر کی اذان تک جاری رہا ۔ بڑے بڑے مگرمچھوں سے اموال مغصوبہ چھیننے کے بعد عمر عام غصب شدہ اموال کی طرف متوجہ ہوئے ۔ گورنروں کو احکام جاری کیے کہ امیر معاویہؓ کے عہد سے لے کر اب تک جو اموال او رجائیدادیں غصب کی گئی ہیں ان کے اصل مالک اگر زندہ ہیں تو انہیں ، ورنہ ان کے ورثا کو واپس کر دی جائیں ۔ اموال واملاک کی واپسی کا یہ سلسلہ خلافت کے

              پہلے روز سے شروع ہوا تو عمر کی وفات تک جاری رہا ۔عمر نے دوسرا اہم قدم یہ اٹھایا کہ سابق خلفا کے مقرر کر دہ ان تمام جابر وظالم گورنروں اور اعلی حکام کو برطرف کر دیا جن کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے آلود ہ تھے ، جو بدعنوان تھے اور مسلمانوں کی عزت و ناموس اور حق و انصاف کو بے خوفی کے ساتھ پاؤں تلے روندتے رہے تھے اور جن کے دلوں میں نہ مسلمانوں کے لیے رحم تھا اور نہ آخرت کا ڈر ۔ تیسری ضرب عمر نے بنو امیہ کے شاہی امتیازات او رقانونی بالادستی اور زعم برتری پر لگائی ۔ عمال او رقضاۃ کے نام فرمان جاری کیا کہ دربار عام اور عدالتوں میں کسی شخص کو دوسروں پر اس لیے ترجیح نہ دی جائے کہ وہ خاندان خلافت سے تعلق رکھتا ہے ۔ یہ لوگ میرے نزدیک تمام مسلمانوں کے برابر ہیں ۔ اس طرح وہ لوگ جو اپنے آپ کو خلق خدا سے بلند وبرتر سمجھتے ہیں انہیں اجتماعی زندگی میں عام لوگوں کے دوش بدوش کھڑا کر دیا ۔

 ٭٭٭

            اب دوسرے امور و معاملات کی طرف متوجہ ہوئے ۔ بیت المال کی اصلاح کی، غیر مسلموں سے جزیہ لینے کی ممانعت کر دی ۔ یہ دیوار گری تو ذمی اس کثرت سے مسلمان ہوئے کہ جزیہ کی آمدنی دفعتا گھٹ گئی ۔ عقبان ابن شریح نے مصر سے لکھا کہ ذمیوں کے اسلام لانے سے بیت المال کو سخت نقصان پہنچا ہے ۔ مجھے تیس ہزار اشرفیاں قرض لے کر مسلمانوں کے عطیے اور وظائف ادا کرنے پڑے ۔ عمر نے جوا ب میں لکھا نو مسلموں پر جزیہ منسوخ کیا جا چکا ہے ، اسے بحال نہیں کیا جاسکتا ۔ اللہ تعالی نے رسول اللہﷺ کو ہادی بنا کر بھیجا تھا ، خراج وصول کرنے والا نہیں، ٹیکسوں کا ایک بوجھ تھا جو شہریوں پر لاد یا گیا تھا ۔ عرائض نویسی پر ٹیکس ، دکانوں پر ٹیکس ، گھروں پر ٹیکس ، پن چکیوں پر ٹیکس الغرض ناجائز ٹیکسوں سے ایک عام آدمی کی کمر ٹوٹی جا رہی تھی ۔ ان سب کو منسوخ کر دیا اور گورنروں کو ہدایت کی کہ بیت المال میں صرف جائز آمدنی داخل کی جائے۔ شاہی خاندان کے مخصوص وظیفے بند کر دیے ۔ محلات کے شکوہ و تجمل کے مصارف بالکل اڑا دیے۔ بیت المال کی نگرانی اور حفاظت کا سخت انتظام کیا ۔ افسر خزانہ کو لکھا کہ وہ ایک ایک درہم کا ذمہ دار ہے ۔ حکمرانوں نے بیت المال کو گھر کا مال سمجھ لیا تھا اور وہ اپنی خواہشات کی اٹھتی ہوئی لہروں پر اس سے اللے تللے کرتے رہتے ۔ عمر نے اسے مسلمانوں کی مشترکہ ملکیت بنایا اور عام شہریوں کی ضروریات اور رفاہ عامہ کے کاموں کے لیے وقف کر دیا ۔ عشر اورزکوۃ و صدقات کے اداروں (Institutions) کی تنظیم نو کی ، پیداواری وسائل کو صحیح طور پر کام میں لانے کی طرف توجہ دی ، کاشتکاروں اور صنعت و حرفت کے میدان سے تعلق رکھنے والے پیشہ وروں پر سے سرکای مطالبات کا دباؤ کم کیا ، احکام جاری کیے کہ زکوۃ و صدقات کی وصولی او رخرچ کا جو نظام حجاج نے رائج کیا تھا کہ وصولی بھی جبر وجور اور ناجائز طریقوں سے کی جاتی اور صرف بھی ناجائز امور پر کیا جاتا ، اس سے اجتناب کیا جائے ۔ عمر بن عبدالعزیز نے امت کی دینی و اخلاقی زندگی کی اصلاح و تربیت اور اسے اجتماعی زندگی کی روح رواں بنانے کی طرف خصوصی توجہ کی، اسلام کی اشاعت و تبلیغ کو ملکیت کا فریضہ اور نصب العین قرار دیا۔ نماز کی پابندی جاتی رہی تھی۔ عمر نے پھر سے نظام صلوٰۃ قائم کیا اور اولین اقدام کے طور پر حکومت کے اعلی ترین عمال اور ہر سطح پر کارکنوں کے لیے نماز با جماعت کو ملازمت اور ترقی کی لازمی بنیادی شرط قرار دیا اور عام مسلمانوں کو ترغیب و تربیت کے ذریعے مسجدوں میں لانے کا اہتمام کیا۔ شراب نوشی کا انسداد کیا۔ نبیذ عام مشروب بنتی جارہی تھی، حالانکہ وہ شراب کی ہی ایک شکل تھی، اس پر پابندی لگا دی۔شرعی اوامر انجام دینے کے لیے فضا کو سازگار بنایا اور نواہی کی نشوونما اور فروغ کے راستے بند کیے۔ شریعت اسلامی کو نص اور روح (letter and spirit) دونوں اعتبارسے نافذ کیا۔ سابق خلفا کو لوگوں کی عام زندگی اور فکری و تہذیبی رویوں سے کوئی سروکار نہ رہا تھا۔ فکر وعمل کی دنیا میں گمراہیاں پل رہی تھیں ، غلط نظریات پروان چڑھ رہے تھے۔ عقائد تک میں فساد پیدا ہوچکا تھا۔ عمر نے زندگی کے اس دائرے کی نگرانی اور اس کے تحفظ کو حکومت کی ذمہ داری قرار دیا۔ ایک ایک فکری اور عملی گمراہی کے انسداد کی کوشش کی۔ امت کی فکری اور نظریاتی تربیت و استحکام کے لیے احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدوین کی۔ کتاب و سنت کی تعلیم کو عام کیا، جلیل القدر تابعین اور علما و صالحین کا وجود اپنی جگہ چراغ کی مانند تھا، وہ جہاں کہیں بیٹھ گئے تھے، اپنے گردو پیش کی دنیا میں نور پھیلا رہے تھے۔ تابعین اور محدثین تو بالعموم سرکاری وظائف قبول کرنے سے گریز کرتے تھے البتہ علما کی بڑی تعداد معاشی طور پر ضرورت مند تھی، ان کے وظائف مقرر کیے تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ دین کی دعوت و اشاعت اور تدریس و تعلیم کا کام جاری رکھ سکیں۔ اخلاقی و نظریاتی اصلاح و تطہیر کے لیے سرکاری مشینری سے بھر پور کام لیا۔ خلفاپر نماز کے بعد درودو سلام بھیجا جاتا تھا۔ فرمان جاری کیا کہ اسے موقوف کیا جاتا ہے۔ درود صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مختص ہے، کوئی دوسرا اس اعزاز کا سزاوار نہیں اور سلامتی کی دعا تمام مسلمانوں کے لیے کی جانی چاہیے۔ محض حکمرانوں کے لیے نہیں۔ اخلاقی مفاسد کی روک تھام کی ۔ حمام معاشرے میں اخلاقی فساد کا بڑا ذریعہ بنتے جارہے تھے۔ اونچے طبقے کے مردوزن ان میں بڑی بے باکی کے ساتھ غسل کیا کرتے تھے۔ یہ بگاڑ رفتہ رفتہ متوسط طبقہ میں بھی پھیلتا جارہا تھا۔ عمر نے حماموں میں غسل کو ممنوع قرار دیا۔ عمر نے اللہ و رسولؐ فراموش کردینے والے ہر شغل پر پابندی عائد کی۔ ان کی بجائے علمی و فکری مجالس کو رواج دیا جن کا موضوع کتاب و سنت کے احکام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اور سیرت مطہرہ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پاکیزہ زندگیاں اور ان کی رزم و بزم کے احوال ہوا کرتے

             سوئے ظن اور شکوک و شبہات پر داروگیر کو ناجائز قرار دیا اور عمال اور قضاۃ(ججوں) کو ہدایت کی کہ صرف شرعی ثبوت پر مواخذہ کیا جائے اور لوگوں کو ان کے جرم کے مطابق سزا دی جائے۔ یہ ہدایت بھی کی کہ حتی الامکان کسی پر حد نہ جاری کی جائے۔ شک کی بنیاد پر کسی مجرم کا چھوٹ جانا اس سے بہتر ہے کہ کوئی شخص اس خطا میں مارا جائے کہ اس کی کوئی خطا نہ تھی۔ ذمیوں کے حقوق بری طرح پامال ہورہے تھے انہیں بحال کیا ۔ عدلیہ کو اس کا وہ مقام دیا جو اسلام نے دیا تھا اور جو خلفائے راشدین کے عہد سعید میں اسے حاصل تھا جس کے آگے خود خلیفہ ایک عام آدمی کی حیثیت سے پیش ہوا کرتا تھا اور مدعی کے برابر کھڑا ہوتا تھا اور عدالت جو فیصلہ کرتی تھی اس کے آگے سر تسلیم خم کر دیتا تھا۔ عمر بن عبدالعزیز نے عدلیہ کے مقامِ بلند کی بحالی کے محض احکام ہی نہیں جاری کیے بلکہ خود اس کی مثال پیش کی۔

            عمر بن عبدالعزیزؒ نے اعلان عام کر دیا تھا کہ ماضی میں حکمرانوں اور ان کے حاشیہ برادروں نے جن لوگوں کے اموال غصب کر لیے تھے یا ان پر کسی نوعیت کی زیادتی ہوئی تھی وہ حکومت کے محکمہ شکایات میں اپنی شکایت لے کے آئیں ، اس کا ازالہ کیا جائے گا۔ چنانچہ ایک مصری حلوان سے دارالخلافہ دمشق پہنچا اور عمر بن عبدالعزیزؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس کا کہنا تھا کہ امیر المومنین کے والد عبدالعزیز بن مروان جن دنوں مصر کے گورنر تھے انہوں نے اس کی زمین غصب کر لی تھی۔ مدعی جو خوف کے مارے مدت سے صبر کی سل سینے پر رکھے بیٹھا تھا اور اب زبان مل گئی تھی، شکایت کرتے وقت آپے سے باہر ہوگیا اور تندو تیز باتیں کہہ گیا۔ عمر بن عبدالعزیزؒ صبرو سکون کے ساتھ سنتے رہے۔ صرف اتنا کہا:‘‘بھائی شریفوں کی طرح جھگڑو اور میری عزت سے نہ کھیلو۔ میں اس زمین کا تنہا مالک نہیں ہوں۔ میرے بھائی، بہنیں ہیں اور وہ لوگ عدالت سے فیصلہ لیے بغیر زمین واپس کرنے پر راضی نہ ہوں گے، میرا مشورہ ہے کہ عدالت میں جاؤ۔ مدعی ماضی کی عدالتوں سے خوب اچھی طرح واقف تھا۔ وہ یا تو مذبح تھیں جہاں عدل و انصاف کو حکمرانوں کے مفاد میں عدل و انصاف کے نام پر ذبح کیا جاتا یا اتنی بے بس کہ اپنی فیصلہ حکمرانوں اور ان کے چہیتوں پر نافذ کرنے سے قاصر رہتی تھیں، تاہم مدعی بدلتے ہوئے شب و روز دیکھ رہا تھا، حوصلہ کر کے اس نے مقدمہ عدالت میں دائر کر دیا۔ قاضی نے فریقین کو طلب کیا۔ عمر اپنے خاندان کی طرف سے عدالت میں حاضر ہوئے اور مدعی کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ قاضی نے بیانات سنے اور فیصلہ مدعی کے حق میں دے دیا۔ عمر نے کہا ہم اس زمین پر کئی ہزار درہم صرف کرچکے ہیں۔ قاضی نے زمین کی آمدنی کا جائزہ لیا اورا پنا فیصلہ سنا دیا۔ عمر اور ان کے گھر والوں نے اس زمین پر جتنی رقم صرف کی تھی، اتنی رقم وہ اس کی پیداوار سے حاصل کر چکے ہیں۔ اس لیے زمین اپنے حقیقی مالک کو لوٹا دی جائے۔ عمر قاضی کے بے لاگ انصاف پر پکار اٹھے: ‘‘اللہ کی آپ پر برکتیں ہوں۔’’ اور زمین اس مصری کے حوالے کر دی۔

 ( 3 )

            ظاہر ہے بنو امیہ ان تبدیلیوں کو ہنسی خوشی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔انہوں نے توعمربن عبدالعزیز ؒکی خلافت ہی کو بجبر و اکراہ قبول کیا تھا۔ رجا بن حیوۃ نے جب مرنے والے خلیفہ (سلیمان بن عبداالملک) کا پروانہ پڑھ کر سنایا اور عمر بن عبدالعزیزؒ کی تقرری کا اعلان کیا تھا تو عبدالملک بن مروان کے بیٹے بڑے سیخ پا ہوئے تھے۔ ہشام بن عبدالملک نے تو ان کی نمائندگی کرتے ہوئے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ہم عمر بن عبدالعزیزؒ کے ہاتھ پر قیامت تک بیعت نہیں کرسکتے۔ سلیمان بن عبدالملک کو پہلے ہی سے اندازہ تھا کہ یہ کڑوی گولی عبدالملک کے بیٹوں کے حلق سے نہیں اترے گی۔ وہ عمر بن عبدالعزیزؒ کی خلافت پر کبھی رضامند نہ ہوں گے۔ اسی لیے اس نے عمر بن عبدالعزیزؒ کے بعد ان کا جانشین یزید بن عبدالملک کو بنا دیا تھا۔ لیکن اسلامی خلافت کے ان اجارہ داروں کے لیے یہ عارضی دور بھی سوہان روح تھا۔ رجا بن حیوۃ جانتے تھے کہ عبدالملک کے گھرانے کا رد عمل کیا ہوگا۔ انہوں نے سلیمان بن عبدالملک کی موت اور وصیت کا اعلان کرنے سے پہلے پوری طرح بندوبست کر لیا تھا کہ اگر کہیں سے کوئی مخالفت کی آواز اٹھے تو اس کو فوراً کچل دیا جائے۔ جونہی مشام کی صدائے انکار بلند ہوئی مسلح گارڈ کے افسر نے تلوار سونت لی اور بولا:آپ امیر المومنین کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں؟ مشام نے کہا:‘‘ ہم صرف عبدالملک کی اولاد ہی سے کسی شخص کی سمع و اطاعت کریں گے۔’’اچانک رجا کی رعب دار آواز بلند ہوئی۔ وہ کہہ رہے تھے : ‘‘خدا کی قسم، اٹھو اور بیعت کرو ورنہ میں تمہاری گردن مار دوں گا۔’’ بنو امیہ نے اسے تلوار کی زد سے بچانے کے لیے کھینچ لیا، اسی کشا کش میں مشام زمین پر گرپڑا اور پھر سب کے سب بیک آواز پکار اٹھے سمعنا و اطعنا( ہم نے امیرالمومنین کا فرمان سنا اور ہم سر تسلیم خم کرتے ہیں) رجا نے جلدی جلدی وصیت کا دوسرا جزو پڑھا‘‘ اور عمر بن عبدالعزیزؒ کے بعد یزید بن عبدالملک خلیفہ ہوگا۔’’ اب ان لوگوں کے ساتھ مشام کی آواز بھی شامل تھی: سمعنا و اطعنا۔

              عبدالملک کے بیٹے مطمئن توہوگئے کہ خلافت ان کے خاندان میں پلٹ آئے گی مگر یہ عارضی محرومی بھی کوئی معمولی حادثہ نہ تھا۔ اس زخم کو ابھی وہ چاٹ ہی رہے تھے کہ مسندِ خلافت پر بیٹھنے کے بعد عمر کے پے بہ پے اقدامات اور ان کا طرز حکمرانی ان کے لیے مستقل اضطراب و اشتعال کا باعث بن گیا۔ اموال مغصوبہ کی واپسی پہلا اقدام تھا جس نے انہیں پیچ و تاب میں مبتلا کیا۔ ذاتی جائیداد کا ہاتھ سے نکل جانا ویسے بھی کچھ کم اشتعال انگیز نہیں ہوتا، کروڑوں روپوں کی یہ جائدادیں اور جاگیریں تو وہ تھیں جن کی بدولت ان کی عظمت و حشمت قائم تھی۔دوسرا اقدام بنو امیہ کے ان امتیازات کا خاتمہ تھا جن کی بنا پر وہ اپنے آپ کو امت سے بالا و برتر سمجھتے تھے۔ انہوں نے اپنے لیے خصوصی قانون اور حقوق مختص کر رکھے تھے، وہ جو چاہتے کرتے کوئی ان کو روکنے ٹوکنے والا نہ تھا، قانون نہ عدالت۔ اب جو یہ خود ساختہ امتیازات چھن گئے اور انہیں زندگی کے ہر معاملہ میں مسلمانوں کے دوش بدوش کھڑا ہونا پڑا تو اسے اپنی سخت ذلت سمجھنے لگے۔ مزید اشتعال انگیز وہ اصطلاحات تھیں جو عمرمملکت کی اجتماعی زندگی کے ہر شعبے میں کر رہے تھے اور جن کے آئینے میں ان لوگوں کو اپنے چہروں کے داغ نظر آرہے تھے۔ یہ سب باتیں ان کے لیے ناقابل برداشت ہوتی جارہی تھیں۔ عمر بن عبدالعزیزؒ کے ساتھ وہ اکثر الجھ پڑتے اور تند و تیز باتیں کشیدہ ماحول کو مزید گھمبیر بنا دیتیں۔ وہ بار بار اپنے نمائندے اور وفود بھیج کر عمر بن عبدالعزیزؒ پر مسلسل دباؤ ڈالتے رہے اور ان کو مختلف اقدامات سے روکنے کی کوشش کرتے۔          

            ایک مرتبہ ھشام بن عبدالملک خاندان کا نمائندہ بن کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ کہنے لگا: ‘‘امیرالمومنین! مجھے تمام خاندان نے اپنا قاصد بنا کر بھیجا ہے۔ میں آپ سے ان کی دل کی بات کہتا ہوں۔ وہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ اپنے طرز عمل پر نظرِ ثانی کیجیے اور ان کے قدیم حقوق بحال رکھیے۔’’‘‘قدیم حقوق بحال رکھوں۔’’ عمر بن عبدالعزیزؒ نے زیر لب کہا اور پھر بلند آواز میں بولے:‘‘ہشام! اگر تمہارے سامنے ایک معاملے میں دو دستاویزات پیش کی جائیں، ایک دستاویز معاویہؓ کی تحریر کردہ ہو اور دوسری عبدالملک کی، تو تم ان دونوں میں سے کس پر عمل کروگے؟’’‘‘جو مقدم ہوگی اس پر عمل کروں گا۔’’ ہشام نے جواب دیا۔ تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ کو مقدم پاتا ہوں اور میں ہر اس شخص اور چیز کو جو میرے، تحت ہے یا مجھ سے پہلے کے خلفا کے زیر حکومت تھی ، سنت رسولؐ ہی سے چلانے کی کوشش کروں گا۔ ’’ عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا۔سعید بن خالد بن عمرو بن عثمان، ہشام کے ساتھ تھا وہ بولا: ‘‘امیر المومنین جو چیزیں آپ کے زیر فرمان ہیں، بے شک ان پر حق و انصاف کے ساتھ حکومت فرمایے، لیکن گزشتہ خلفا نے جو کچھ کیا، برا یا بھلا، اس کو ویسے ہی رہنے دیجیے۔ آپ تو اپنے دور کے ذمہ دار ہیں، پچھلے ادوار کے نہیں۔’’‘‘اگر کوئی شخص چند چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر مر جائے اور بڑے بچے چھوٹے بہن بھائیوں کی دولت پر متصرف ہوجائیں اور وہ تمہارے پاس فریاد لے کر آئیں تو تم کیا کرو گے؟’’ عمر بن عبدالعزیزؒ نے سعید سے پوچھا۔‘‘میں انہیں ان کے تمام چھینے ہوئے حقوق واپس دلواؤں گا۔’’سعید نے کہا۔ وہ اور جواب بھی کیا دے سکتا تھا؟ اس نے عمر بن عبدالعزیزؒ کے طرزِ عمل کی صحت پر مہر تصدیق ثبت کر دی تھی۔ ‘‘یہی میں کہہ رہا ہوں۔’’ عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا۔ ‘‘میرے نزدیک پچھلے خلفا اور ان کے مصاحبین نے لوگوں پر جبروزیادتی کی، ان کے حقوق پامال کیے اور جب میں خلیفہ بنا تو لوگ میرے پاس فریاد لے کر آئے۔ اب میرے پاس اس کے سوا اور کیا راستہ ہے کہ طاقتور لوگوں نے کمزوروں کے جو حقوق چھین لیے تھے، انہیں واپس دلواؤں۔’’

            ایک اور موقع پر ان کے اہل خاندان ان کے دروازے پر آ جمع ہوئے اور عمر بن عبدالعزیزؒ کے صاحبزادے سے کہا:‘‘ ہم امیرالمومنین کی خدمت میں باریابی چاہتے ہیں، یا تو اجازت دلواؤ یا پھر ہمارا پیغام ان تک پہنچا دو۔’’ صاحبزادے نے پیغام پہنچانے کی حامی بھر لی۔ ‘‘ان سے پہلے جو خلفا تھے وہ ہمیں عطیات سے نوازتے اور ہمارے مراتب کا پاس کرتے تھے لیکن تمہارے باپ نے ہمیں بالکل ہی محروم کر دیا۔ ’’ صاحبزادے نے یہ پیغام من و عن جا سنایا۔ عمر بن عبدالعزیزؒ نے کہا۔‘‘ان سے کہہ دو کہ میرا باپ کہتا ہے، مجھے قیامت کے عذاب کا ڈر ہے۔ میں اپنے رب کی نافرمانی نہیں کروں گا۔’’

            بنوامیہ نے جب دیکھاکہ ان کے احتجاج کا عمر پر کوئی اثر نہیں ہوتا تو ان کی پھوپھی کو ان کی خدمت میں گویا الٹی میٹم دے کر بھیجا۔ عمر بن عبدالعزیزؒ ان کے ساتھ بڑے احترام اور سعادت مندی سے پیش آئے۔ کہنے لگیں:‘‘بھتیجے! تمہارے قرابت دار شکایت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم نے ان سے وہ روٹی بھی چھین لی ہے جو دوسروں نے دی تھی۔’’ فرمایا:‘‘میں نے ان کا کوئی حق نہیں مارا۔’’ وہ بولیں:‘‘وہ لوگ تمہارے رویے پر سخت برہم ہیں، تم ان کی مجلسوں کا موضوع سخن بنے ہوئے ہو، مجھے ڈر ہے کہیں وہ تمہارے خلاف بغاوت نہ کر دیں۔’’ عمر کسی تاثر کے بغیر پھوپھی کی باتیں سنتے رہے۔ لیکن جب پھوپھی نے اس دھمکی کو بار بار دہرایا تو فرمایا:‘‘اگر میں قیامت کے سوا کسی اور دن سے ڈروں تو اللہ مجھے اس دن کی برائیوں سے نہ بچائے۔’’ ان کے لہجے میں ان کا عزم صاف جھلک رہا تھا۔ پھوپھی اٹھ کے جانے لگیں تو انہیں روک لیا، پھر ایک سلگتی ہوئی انگیٹھی ، گوشت کا ایک لوتھڑا اور ایک اشرفی منگوائی۔ اشرفی دہکتے انگاروں پر رکھی اور جب وہ سرخ ہوگئی تو گوشت کے لوتھڑے کو اس پر ڈال دیا۔ گوشت کا لوتھڑا سکڑتا گیا، سکڑتے سمٹنے لگا جیسے تڑپ رہا ہو۔ پھر تر تڑانے کی آوازیں آئیں، دیکھتے ہی دیکھتے لوتھڑا بھن گیا اور پھر جلنے لگا۔ عمر بن عبدالعزیزؒ نے پھوپھی کی طرف دیکھا اور بولے: ‘‘پھوپھی! اپنے بھتیجے کے لیے اللہ کی پناہ نہیں مانگتیں؟ کیا آپ اسے اس لوتھڑے کے سے انجام سے دوچار کرنا چاہتی ہیں؟ ــ’’پھوپھی چپ چاپ اٹھی اور چلی گئی اور ان لوگوں سے جاکر کہا: میں نے عمر بن خطاب کے خاندان میں عبدالعزیز کا رشتہ کرنے سے تمہیں نہیں روکا تھا؟ اب اپنے کیے کا خمیازہ بھگتو۔’’

            عمر بن عبدالعزیزؒکے ساتھ بنوامیہ کے تعلقات رو ز بروز کشیدہ ہوتے چلے گئے۔ تندو تلخ باتوں میں بلند آہنگی آتی گئی اور خاندانی دباؤ بڑھتا گیا۔ قدم قدم پر رکاوٹیں حائل کی جانے لگیں۔ لیکن عمر بن عبدالعزیزؒ کسی بات کو بھی خاطر میں نہ لاتے۔ جب بہت زیادہ دباؤ پڑنے لگا تو صاف صاف کہہ دیا کہ تم لوگ میرے کام میں مداخلت نہ کرو ورنہ میں یہ امانت امت کے کسی اہل شخص کے حوالے کر کے خود مدینۃ النبی چلاجاؤں گا۔ ایک بار تو انہوں نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پوتے اور اپنے عہد کے جلیل القدر امام قاسم بن محمد کا نام بھی لیا جو ان کے نزدیک منصبِ خلافت کے لیے اہل ترین شخص تھے۔ بنو امیہ نے محسوس کیا کہ اگر عمر بن عبدالعزیزؒ کو زندگی کی مہلت دے دی گئی تو وہ خلافت کو ان کے خاندان سے نکال کر عام مسلمانوں کے حوالے کر دینے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ چنانچہ انہیں زہر دے دیا گیا۔ عمر بن عبدالعزیزؒ بیس دن بیمار رہے اور پھر بنو امیہ کے دلوں سے وہ کانٹا نکل گیا جس نے ان کے عیش و عشرت اور امت پر ان کی بالاد ستی کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ وفات کے وقت عمر بن عبدالعزیزؒ چالیس برس کے تھے۔

            عمر بن عبدالعزیزؒ کو صرف ڈھائی برس حکومت کرنے کی مہلت ملی۔ یہ مدت کسی قوم کی زندگی میں تغیر لانے کے لیے بہت تھوڑی ہے۔ خصوصاً جب کہ یہ تغیر اصلاحی اور تعمیری ہو۔

(4)

            کسی معاشرے میں تخریب اور بگاڑ پیدا کرنا جتنا آسان ہوتا ہے ، تعمیر اور اصلاح اتنی ہی دشوار اور کٹھن ہوتی ہے ۔ عمر بن عبدالعزیز اگرچہ مملکت کے نظام میں بنیادی تغیر نہ لا سکے ۔ تاہم انہوں نے دن رات کی جدوجہد اور جگرکاری سے مسلمانوں اور مملکت کی اجتماعی زندگی کا عام نقشہ بدل ڈالا ۔ عام آدمی کی فکر و نظر میں جو تبدیلی آئی اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ولید بن عبدالملک کے زمانے میں ہر کہ ومہ کی زبان پر عمارتوں کا ذکر ہوا کرتا تھا کیونکہ وہ عمارتیں تعمیر کرنے کا دلدادہ تھا ۔ سلیمان بن عبدالملک عورتوں کا شوقین تھا اس کے زمانے میں لوگوں کے اعصاب پر عورت سوار ہو گئی اور جب عمر بن عبدالعزیز کا عہد آیا تو ہر جگہ اسلام ، اسلامی احکام وقوانین اور اسلام کی تعلیمات کا چرچا تھا ۔ اس عہد میں عام آدمی کا زاویہ فکر ہی نہیں بدلا ، بہت سے اہل دانش وبنیش کی زندگی کی راہیں بھی بدل گئیں امام ابو حنیفہ اٹھارہ برس کے تھے جب عمر بن عبدالعزیز سریر آرائے خلافت ہوئے۔ اس عہد کی برکت سے ان کی زندگی میں جو تغیر رونما ہوا اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ‘‘ابتدا میں میں علم کلام فلسفہ کو تمام علوم سے بہتر سمجھا جاتا تھا اور یہی میری ساری فکری و عملی تگ ودو کی جولانگاہ تھا ، اسی فن میں میں لوگوں کا مقابلہ کرتا اور انہیں چیلنج دیتا تھا ۔’’ بصرہ اس زمانے میں مختلف مکاتب فکر کا مرکز تھا ، جہاں بڑے بڑے فلسفی ایک دوسر ے سے بحثیں کرتے او ربز عم خویش علمی و فکری معرکے سر کرتے قرآن وحدیث اور دینی علوم کا ان کی محفلوں میں ذکر ہوتا تو بھی تو ان سے ہدایت طلب کرنے اور اپنی بگڑی ہوئی زندگیوں کے پیچ وخم سنوارنے کے لیے نہیں بلکہ انہیں فلسفیانہ موشگافیوں کا ہدف اور اسلامی فکر اور عقائد و اعمال کو بے وقعت ثابت کرنے کے لیے ہوتا ۔ ان لوگوں کی جو وضع قطع ، رنگ ڈھنگ او رکردار وسیرت تھی حضرت امام اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں ۔ ‘‘نہ ان کی صورتیں پرانے بزرگوں کی سی تھیں اور نہ ان کا طور طریقہ صالحین کا سا تھا ۔ ان کے دل سخت اور بے حس ہو چکے تھے ۔ وہ کتاب و سنت کے خلاف بے دریغ ہرزہ سرائی کرتے ، ان میں نہ تقوی تھا نہ خدا ترسی ۔’’عمر بن عبدالعزیز کا عہدطلوع ہوا تو سوچ کے انداز اور اذہان کے رخ بدل گئے ۔ بے حس دلوں کو احساس کی چنگاریاں گرمانے لگیں ، نام نہاد علمی محفلوں کے چراغ دھندلانے لگے اور علم ودانش کے نام پر جہل وضلالت پھیلانے والوں کی مجلسیں اجڑنے لگیں ، لوگ کتاب و سنت کے دامن سے وابستہ ہونے لگے ، دلوں میں پھر سے دینی جوش اور دینی زندگی کی لگن پیدا ہو گئی ۔امام صاحب انہی لوگوں میں تھے ۔ وہ فلسفہ و کلام کی کج بحثیاں چھوڑ کر اس راستے پر ہو لیے جس پر سلف گامزن رہے تھے ۔ اس طرح عہد عمر کی برکت سے امت کو ایک ایسی عظیم شخصیت مل گئی جس نے اسلامی قانون و فقہ کے شعبہ میں وہ کام کیا جو رہتی دنیا تک اس راہ کے راہرووں پر روشنی بکھیرتا رہے گا ۔

            اور یہ تو صرف ایک رجل عظیم تھا ، عمر بن عبدالعزیز کا یہ مختصر دور ، آنے والے ادوار میں ، اسلام کی فکری اور تہذیبی زندگی کے لیے اس ابر بہاراں کی مانند بن گیا جو باد سموم کے ہاتھوں تباہ ہوتی اور اجڑتی کھیتیوں میں شادابی اور زندگی کی رو دوڑا دیتا ہے ۔ اس عہد نے امت کی ان امنگوں کو پھر سے تازگی بخشی جنہیں جبر و استبداد نے ٹھٹھرا کے رکھ دیا تھا ۔ اگرچہ عمر بن عبدالعزیز کی آنکھیں بند ہوتے ہی مطلق العنانی ، اور سیاسی بگاڑ کے شب و روز پلٹ آئے اور اصلاح اور تعمیر نو کا جو عمل شروع ہوا تھا وہ ختم ہو کر رہ گیا ۔ تاہم عمر اسلامی معاشرے میں جو ہل چل پیدا کر گئے ، مختلف دائروں میں اس کی لہریں اٹھتی رہیں جنہوں نے اسلامی معاشر ے کو عہد بہ عہد زندہ و متحرک رکھا ۔

            فکر و نظر کی تبدیلی ، اخلاق و کردار کی اصلاح اور عمال و حکام کی خود آگاہی اور فرض شناسی کے نتائج مملکت کے ہر شعبے میں نمودار ہوئے ۔ رجا بن حیوۃ کو ایک والی نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ ‘‘ میں نے دیکھا ظالم ظلم کرتا ہے تو لوگ اس کا ہاتھ پکڑ کر مدد کرتے ہیں، تونگروں کے دل بھر گئے ہیں اور مفلس و قلاش لوگ مال کی ہوس میں مبتلا ہونے کے بجائے نیکی کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں ۔’’ اقتصادی و معاشی زندگی میں انقلاب کی یہ کیفیت تھی کہ پہلے لوٹ کھسوٹ کا استیصال کیا او رناجائز ٹیکس ختم کر دیے ۔ نتیجہ یہ کہ ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ ہو گیا دو برس کے اندر اندر یہ حالت ہو گئی کہ لوگ صدقہ و زکوۃ کا مال حکام کے پاس لاتے مگر کوئی حاجت مند نہ ملتا جسے یہ مال دیا جاتا ۔ ان پالیسیوں کے اثرات ملک کے نظم و نسق پر بھی پڑے ، فتنہ و فساد اور بغاوتیں ختم ہو گئیں ۔ خوارج اس زمانے کے نراجی( Anarchists ) تھے ۔ حضرت علیؓ کے عہد میں ان کے فتنے نے جو سر اٹھایا تو آنے والے برسوں میں کوئی بھی حکومت ان کو کچلنے میں کامیاب نہ ہو سکی ۔ امن و امان اٹھ گیا ۔ عمر بن عبدالعزیز کی پالیسیوں نے ان انارکسٹوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ۔ انہوں نے ایک اجتماع منعقد کیا اور عمر کے کردار وعمل پر بحث کرتے رہے اور آخر میں فیصلہ کیا کہ اس شخص سے تعرض نہیں کرنا چاہیے ۔ دوسری طرف خود عمر نے ان کے سرخیل بسطام سے مذاکرات کیے جو کامیاب رہے اور ان کی خونچکاں تلواریں ساٹھ برسوں میں پہلی بار نیاموں میں چلی گئیں ۔ دوسرے الفاظ میں خوارج نے عمر بن عبدالعزیز کی حکومت کو (اپنے نقطہ نظر سے ) قانون کی حکومت کو تسلیم کر لیا ہر طرف امن و امان کا دور دورہ ہو گیا ۔ (جاری ہے )