امام ابو حنیفہؒ

مصنف : عبدالرحمان رافت الباشا

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : اپریل 2006

ترجمہ ، محمود احمد غضنفر

            خوب رو ، خوش منظر ،شیریں کلام ، درمیانہ قدنہ زیادہ لمبے اور نہ ہی زیادہ چھوٹے دیکھنے والا رشک بھری نگاہوں سے دیکھتا ہی رہ جاتا ۔ لباس بہت عمدہ اور صاف ستھرا پہنتے ، سراپا بارعب ، عمدہ عطریات کا استعمال بڑی کثرت اور اہتمام سے کرتے ، جن راہوں سے گزرتے لوگ انہیں دیکھے بغیر خوشبو ہی سے پہچان جاتے کہ اس راہ سے حضرت کا گزرہوا ہے ۔

            ان اوصاف سے آراستہ عظیم المرتبت شخصیت کا نام نعمان بن ثابت مرزبان ہے جو ابو حنیفہ کنیت سے مشہور ہوئے ، جنہوں نے سب سے پہلے فقہ کی گتھیاں سلجھائیں اور عمدہ انداز میں مسائل کا استخراج اور دینی نکات سے لوگوں کو متعارف کرایا ۔

 ٭٭٭

            امام ابو حنیفہ نے بنو امیہ کا آخری اور بنو عباس کا ابتدائی دور حکومت دیکھا ، امام موصوف نے ان حکمرانوں کے دور میں زندگی بسر کی جو علما کے قدر دان تھے انہیں حکومت کی جانب سے وافر مقدار میں مالی وسائل مہیا کیے جاتے جس سے ان کی گذر بسر خوشحالی سے ہوتی اور انہیں تلاش روزگار کی ضرورت ہی نہ محسوس ہوتی ۔ لیکن امام ابو حنیفہ نے خودداری کا قابل رشک مظاہر ہ کرتے ہوئے عزت نفس اور علمی وقار کو پیش نظر رکھا اور اپنی اقتصادی حالت کو حکومت کا مرہون منت نہ ہونے دیا ، انہوں نے پوری زندگی خود کما کر کھایا اوران کی مقدور بھر یہی کوشش رہی کہ ان کا ہاتھ بلند رہے کیونکہ دینے والا ہاتھ لینے والوں سے بہتر ہوتا ہے ۔

 ٭٭٭

            ایک مرتبہ حکمران وقت منصور نے ملاقات کے لیے امام ابو حنیفہ کو اپنے دربار میں بلایا جب آپ وہاں پہنچے اس نے شاہانہ انداز سے استقبال کیا ، عزت و اکرام کے ساتھ اپنے ساتھ بٹھایا ۔ دین و دنیا کے بارے میں بہت سے سوالات کیے ۔ جب ملاقات کے بعد آپ واپس جانے لگے تو اس نے عزت ، اکرام او رادب کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے ایک تھیلی پیش کی جس میں تیس ہزار درہم تھے ۔ حالانکہ منصور بخل کے اعتبار سے بہت مشہور تھا ۔ امام ابو حنیفہ نے ارشاد فرمایا : ( امیر المومنین میں بغداد میں اجنبی ہوں ۔ یہ مال سنبھالنے کے لیے میرے پاس جگہ نہیں مجھے اندیشہ ہے کہ یہ ضائع ہو جائے گا ، آپ اسے اپنے پاس بیت المال میں سنبھال لیں جب مجھے ضرورت ہو گی میں آپ سے لے لوں گا ) منصور نے وہ مال امانت کے طور پر بیت المال میں رکھ دیا ۔ اس واقعہ کے تھوڑے ہی عرصہ بعد امام ابو حنیفہؒ داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اللہ کو پیارے ہو گئے ۔وفات کے وقت ان کی گھر میں لوگوں کی امانتیں اتنی مقدار میں موجود تھیں ، جن کی مالیت اس سے کہیں زیادہ تھی ، جو حاکم وقت منصور کی جانب سے بیت المال میں بحق امام ابو حنیفہ محفوظ تھی ۔

            منصور کو جب اس صورت حال کا پتہ چلا تو اس نے آہ بھر کر کہا : اللہ تعالی ابو حنیفہ پر اپنی رحمت کی برکھا برسائے اس نے ہمارا عطیہ قبول کرنا گوارا ہی نہیں کیا ۔ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کیونکہ امام ابو حنیفہ ؒ کا موقف یہ تھا کہ انسان جو خود اپنے ہاتھ سے کماکر کھاتا ہے وہ زیادہ پاکیزہ ، عمدہ او ردل پسند کھانا ہوتا ہے ۔ ہم امام موصوف کی زندگی کا مشاہدہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں کہ آپ نے امور تجارت کو سرانجام دینے کے لیے وقت مخصوص کر رکھا تھا ۔ آپ ریشم اور اس سے تیارہ کردہ کپڑوں کی تجارت کیا کرتے تھے ۔ عراق کے مختلف شہروں میں تجارتی کا م کا خوب چلن تھا ۔ ان کی ایک مشہور و معروف منڈی بھی تھی جس میں خرید و فروخت کے لیے لوگ کشاں کشاں پہنچتے وہاں پوری صداقت اور امانت سے لین دین ہوتا لوگ بڑے اطمینان سے سودا سلف خریدتے کسی کو اندیشہ نہ ہوتا اور نہ ہی کوئی خطرہ محسوس کرتا ۔ لوگوں کو منڈی میں خریدنے کے لیے اعلی اور نفیس ورائٹی ملتی جس سے بلند ذوقی کا احساس پیدا ہوتا ۔ تجارت سے امام موصوف کو خاطر خواہ نفع حاصل ہوتا اور اللہ کے فضل و کرم سے وافر مقدار میں مال و دولت میسر آتا ۔ حلال کماتے اور اپنے مال کو اس کی اصلی جگہ پر خرچ کرتے ، عرف عام میں یہ بات مشہور تھی کہ جب سال پورا ہو جاتا تو آپ تجارت سے حاصل ہونے والے تمام منافع کا حساب لگاتے ، اپنے ذاتی اخراجات کے لیے مال رکھنے کے بعد باقی مال سے علما ، محدثین ، فقہا اور طلبا کے لیے ضروری اشیا ، خوراک اور لباس خریدتے ۔ اور کچھ جیب خرچ کے لیے انہیں نقد رقم فراہم کرتے ہوئے فرماتے : یہ مال تمہارا ہے اللہ سبحانہ وتعالی نے میرے ہاتھ سے تمہارے مال میں منافع عطا کیا ہے ۔ بخدا میں اپنے مال سے تمہیں کچھ نہیں دے رہا یہ اللہ کاخاص فضل ہے جو میرے ذریعہ آپ تک پہنچ رہا ہے ۔ اللہ کے رزق میں اللہ کے سوا کوئی دم نہیں مار سکتا ۔

 ٭٭٭

            امام ابو حنیفہ ؒ کے جود و سخا کی خبریں مشرق و مغرب میں پھیل چکی تھیں ، خاص طور پر اپنے ہم نشینوں اور ساتھیوں پر بے دریغ خرچ کیا کرتے تھے ۔ ایک روز امام موصوف کا ایک ہم نشین منڈی میں آیا اور اس نے کہا : اے ابو حنیفہ مجھے ریشم کا کپڑا چاہیے ۔ امام نے پوچھا ، کس رنگ کا کپڑا مطلوب ہے ؟ اس نے رنگ کے بارے میں وضاحت کی ۔ آپ نے فرمایا : صبر کرو اس رنگ کا کپڑا ملتے ہی تیرے لیے محفوظ کر لوں گا ۔

            ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد مطلوبہ کپڑا ملا تو آپ لیکر اپنے ساتھی کے گھر گئے ۔ اور اس سے کہا لیجیے آپ کی پسند کے مطابق کپڑا مل گیا ہے ۔ اس نے دیکھا تو اسے بہت پسند آیا ۔ پوچھا کتنی قیمت پیش کروں ؟ فرمایا : صرف ایک درہم ! اس نے بڑے تعجب سے پوچھا صرف ایک درہم ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! اس نے کہا : آپ میرے ساتھ مذاق کر رہے ہیں ۔ مذاق نہیں کر رہا دراصل میں نے یہ، اور اس کے ساتھ دوسرا کپڑا بیس دیناراور ایک درہم کا خریدا تھا دوسرے کپڑے سے میرے پیسے پورے ہو گئے ہیں یہ باقی رہ گیا تھا آپ سے ایک درہم کا مطالبہ اس لیے کر رہا ہوں کہ میں اپنے ساتھیوں سے منافع نہیں لیا کرتا ۔

 ٭٭٭

            ایک بوڑھی عورت نے امام صاحب سے ریشم کا کپڑا مانگا ۔ آپ نے مطلوبہ کپڑا اس کے لیے نکالا اس نے کہا میں ایک عمر رسیدہ عورت ہوں اشیا کی قیمتوں کا مجھے علم نہیں برائے مہربانی آپ مجھے تھوڑے سے منافع پر کپڑا دے دیں ۔ میں ایک کمزور و ناتواں عورت ہوں ۔ آپ نے فرمایا : میں نے دو تھان ایک ساتھ خریدے تھے۔ ایک تھان فروخت کرنے سے مجھے چار درہم کم پوری رقم مل گئی ہے ۔ آپ یہ دوسرا تھان صرف چار درہم دے کر لے جائیں ۔ میں آپ سے کوئی منافع نہیں چاہتا ۔

 ٭٭٭

            ایک روز آپ کے پاس ایک ساتھی پھٹے پرانے کپڑے پہنے ملاقات کے لیے آیا۔ جب سب لوگ چلے گئے تو آپ نے اس سے کہا مصلی اٹھائیں اس کے نیچے جو کچھ ہے وہ لے لیں ۔ اس شخص نے مصلی اٹھایا دیکھا کہ اس کے نیچے ایک ہزار درہم پڑے ہیں امام ابو حنیفہ نے فرمایا یہ اپنے پاس رکھیں ، اپنے لیے عمدہ لباس تیار کریں ۔ اس نے کہا میر ے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے مجھے اس کی ضرورت نہیں ۔ آپ ؒ نے اس سے کہا اگر اللہ نے آپ پر اپنا فضل و کرم کیا ہے اور اپنی نعمتوں سے نوازا ہے تو ان نعمتوں کے آثار کہاں ہیں ، آپ ان نعمتوں کو استعمال کیوں نہیں کرتے ؟ کیا آپ تک رسول اللہ ﷺ کا یہ پیغام نہیں پہنچا : ‘‘بلاشبہ اللہ پسند کرتا ہے کہ اپنی نعمت کے آثار اپنے بندے پر دیکھے ۔’’ آپ کے لیے ضروری ہے کہ اپنی حالت کو سنوارو تاکہ آپ کو دیکھ کر آپ کے کسی ساتھی کو کوفت نہ ہو ۔

 ٭٭٭

            امام ابو حنیفہ ؒ کے جود و سخا کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی اپنے اہل خانہ پر خرچ کرتے تو اتنی ہی مقدار میں مساکین ، فقرا اور حاجت مندوں کے لیے مال صدقہ کرتے ۔ جب کبھی خود کوئی نیا کپڑا پہنتے اتنی ہی قیمت کے کپڑے مساکین کو سلا کر دیتے ، جب آپ کے سامنے کھانا رکھا جاتا آپ اتنی ہی مقدار میں یا اس سے دو گنا کھانا مساکین میں تقسیم کر دیتے ۔

 ٭٭٭

            امام کے بار ے میں حکایت مشہور ہے کہ اگر کبھی دوران گفتگو انہوں نے قسم کھا لی تو وہ اس کے بدلے ایک درہم اللہ کی رہ میں صدقہ کر دیتے ۔ پھر انہوں نے اپنے اوپر یہ لازم کر لیا کہ اگر گفتگو کرتے ہوئے زبان سے حلفیہ کلمات نکل جاتے تو سونے کا ایک دینار اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ۔ یہ اس صورت میں تھا جب آپ کی قسم بالکل سچی ہوتی تو ایک دینار راہ خدا میں صدقہ کرتے ۔

 ٭٭٭

            حفص بن عبد الرحمان تجارت میں امام ابو حنیفہ کے شریک تھے ، امام موصوف انہیں ریشم کا سازوسامان دیکر عراق کے بعض شہروں کی طرف روانہ کیا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ کافی مقدار میں سامان دیکر بھیجا اور اسے بتا دیا کہ فلاں فلاں کپڑا داغ والا ہے جب آپ اسے فروخت کریں تو خریدار کو اس عیب سے آگاہ کر دینا ۔ جناب حفص بن عبدالرحمان نے تمام سامان بیچ دیا اور خریداروں کو ناقص کپڑوں کے بار ے میں بتانا بھول گئے ۔انہوں نے بڑی کوشش کی کہ ان خریداروں کے نام یاد آجائیں جنہوں نے ناقص کپڑا خریدا ہے لیکن وہ پورے جتن کے باوجود ان کے نام یاد کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ جب امام ابو حنیفہ کو صورت حال کا علم ہوا اور ان لوگوں کو پہچاننے میں ناکامی کا پتہ چلا تو بڑے بے چین ہو گئے ۔ جب تک آپ نے اس پورے مال کی قیمت کا مال اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کیا انہیں دلی اطمینان نصیب نہ ہوا ۔

 ٭٭٭

            امام ابو حنیفہ خوش اخلاق ، خوش اطوار ، حلیم الطبع اور خوش مذاق تھے ۔ آپ کے پاس بیٹھنے والا سعادت حاصل کرتا ۔ آپ کا مخالف بھی غیر حاضری میں آپ کو اچھے الفاظ سے یاد کرتا ۔ آپ کے ایک قریب ساتھی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مبارک کو حضرت سفیان ثوریؒ سے یہ بات کہتے ہوئے سنا کہ : اے ابو عبداللہ امام ابو حنیفہ غیبت سے بہت نفرت کیا کرتے تھے ۔ میں نے کبھی ان کو اپنے دشمن کے خلاف برا بھلا کہتے ہوئے نہیں سنا ۔ امام سفیان ثوری نے کہا : امام ابو حنیفہ بڑے دانشمند تھے وہ کسی ایسی چیز کو اپنی نیکیوں پر غالب نہیں آنے دیتے تھے جو ان پر پانی پھیر دے ۔

            امام ابو حنیفہؒ کو لوگوں کی محبت او رالفت شکار کرنے کا بہت شوق تھا اور وہ ہمیشہ ان سے خوشگوار تعلقات کے خواہاں رہتے ۔ آپ کے بار ے میں مشہور تھا کہ جب کوئی اجنبی آپ کے پاس آکر بیٹھ جاتا ۔ جب وہ اٹھ کر جانے لگتا اور آپ اس سے آمد کا مقصد ضرور دریافت کرتے ، اگر وہ فقیر ہوتا تو آپ اس کی مالی مدد کرتے ، اگر وہ بیمار ہوتا تو اس کی تیمار داری کرتے ، اگر وہ ضرورت مند ہوتا تو آپ اس کی ضرورت کو پورا کرتے ۔ یہاں تک کہ اس کا دل جیت لیتے ۔

 ٭٭٭

            امام ابو حنیفہؒ اکثر وبیشتر دن کو روزہ رکھتے او ررات کو عبادت میں مصروف رہتے ۔ قرآن حکیم کو بڑی محبت اور چاہت کے ساتھ پڑھتے یوں معلوم ہوتا کہ آپ قرآن کے بڑے گہرے دوست ہیں ۔ سحری کے وقت استغفار کرتے ، کثرت عبادت اور اس میں مگن ہونے کا اصلی سبب یہ تھا کہ ایک دن انہوں نے لوگوں میں سے چند افراد کو یہ کہتے ہوئے سن لیا تھا کہ یہ شخص بڑا عبادت گذار ہے رات بھر عبادت میں مصروف رہتا ہے جب آپ نے اپنے بارے میں یہ بات سنی تو فرمانے لگے کہ میرا طرز عمل تو لوگوں کے جذبات کے بالکل برعکس ہے ، کیوں نہ میں ویسا ہی بن جاؤں جیسا لوگ میرے بارے میں خیال ظاہر کرتے ہیں پھر انہوں نے عزم کر لیا کہ میں زندگی بھر اپنے سر کے نیچے تکیہ نہیں لوں گا ۔ پھر ان کی یہ عادت بن گئی کہ رات کا بیشتر حصہ عبادت میں صرف کرتے ۔ جب رات تاریکی کی چادر کو کائنات پر پھیلا دیتی ، جب لوگ نیند کے مزے لینے لگتے تو یہ عمدہ لباس پہنتے داڑھی میں کنگھی کرتے خوشبو لگاتے پھر محراب میں قیام رکوع اور سجدے کی حالت میں رات کا بیشتر حصہ گذار دیتے کبھی گڑا گڑا کر اللہ کے حضور دعائیں مانگتے اور کبھی یہ آیت بار بار پڑھتے جاتے : بل الساعۃ موعدھم والساعۃ ادھی امر اور اللہ کی خشیت سے زارو قطار ایسا روتے جس سے دل دہل جاتے ،خوف خدا سے روتے ہوئے بعض اوقات ایسی گھگھی بندھتی جس سے عام آدمی کا جگر چھلنی ہو جائے۔ اور جب آپ سورہ زلزال پڑھتے تو آپ کے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ، دل خوف سے تھر تھر کانپنے لگتا اپنی داڑھی کو ہاتھ میں پکڑ کر یہ کہتے : اے ذرہ برابر نیکی کا بدلہ دینے والے ! اے ذرہ برابر شر کی سزا دینے والے ! اپنے بندے نعمان کو جہنم کی آگ سے بچا لینا ۔ الہی اپنے بندے کو ان برائیوں سے دور کر دے جو جہنم کے قریب کرنے کا باعث بنتی ہیں ۔ یا ارحم الراحمین ! اپنی رحمت کے وسیع سائے میں اپنے بندے کو داخل کر لے

 ٭٭٭

            ایک روز امام ابو حنیفہؒ امام مالکؒ کے پاس آئے وہاں چند ساتھی اور بھی بیٹھے ہوئے تھے ، جب ملاقات کر کے واپس چلے گئے تو امام مالک نے ساتھیوں سے پوچھا کیا تم جانتے ہو کہ یہ شخص کون ہے ؟ سب نے کہا نہیں، ہم تو نہیں جانتے ۔ آپ نے فرمایا یہ نعمان بن ثابت ہیں ۔ یہ وہ شخص ہے کہ اگر یہ ستون کو کہہ دے کہ یہ سونے کا ہے اسے ثابت کرنے کے لیے ایسے دلائل دے گا کہ مدمقابل کو تسلیم کرنے کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو گا وہ دلائل سے مرعوب ہو کر تسلیم کر لے گا کہ واقعی یہ سونے کا ہی ہے ۔

 ٭٭٭

            امام مالک نے امام ابو حنیفہ کی قوت استدلال ، بیدار مغزی اور زود فہمی کے بار ے میں کوئی مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا۔ تاریخ و سیر کی کتابوں میں ایسے واقعات درج ہیں جن سے پتاچلتا ہے کہ امام موصوف اپنے مدمقابل کو دلائل سے ایسا زچ کرتے کہ وہ بات کرنے کے قابل ہی نہ رہتا جیسا کہ امام مالک نے ان کے بارے میں فرمایا کہ اگر یہ اپنے مدمقابل کو کہہ دیں کہ تیرے سامنے جو مٹی پڑی ہے یہ سونا ہے تو اسے سونا ثابت کرنے کے لیے ایسے دلائل دیں گے کہ آخرکار اسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ واقعی یہ سونا ہے اسی طرح اگر کسی دینی مسئلے میں ایک موقف اختیار کر لیں تو اسے حق ثابت کرنے میں تو یہ ید طولی رکھتے ہیں ۔

            کوفہ میں ایک ایسا گمراہ شخص رہائش پذیر تھا ۔ جسے بعض لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ اور اس کی باتیں غور سے سنا کرتے ۔ اس نے ایک دفعہ لوگوں سے کہا (نعوذباللہ) کہ عثمان بن عفان حقیقت میں یہودی تھا ۔ اور وہ اسلام قبول کرنے کے بعد بھی یہودی ہی رہا ۔ اما م ابو حنیفہ نے جب یہ بات سنی تو آپ کے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔ آپ فوراً اس کے پاس پہنچے ، اس سے ملاقات کی اور فرمایا آج میں ایک خاص کام کے لیے آیا ہوں ۔ اس نے کہا چشم روشن دل ماشاد فرمائیے ۔ کیا کام ہے سرآنکھوں پر خوش آمدید آپ فرمائیں ، آپ جیسے معزز انسان کی بات کو قبول کرنا سعادت ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ کی بیٹی کی نسبت میں اپنے فلاں ساتھی سے کر دوں کیا آپ کو منظور ہے ، کیوں نہیں کیوں نہیں ۔ لیکن منگیتر کا ذرا تعارف تو کرائیں کہ وہ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا : وہ بڑا مال دار اور اپنی قوم میں اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، بڑا سخی ہے کھلے ہاتھ کا مالک ہے ۔ حافظ قرآن ہے ۔ شب زندہ دار ہے ۔ اللہ کے خوف کی وجہ سے آہ وزاری کمال انداز میں کرتا ہے ۔ اس نے اتنی تعریف سن کر کہا ، بس بس اتناہی کافی ہے ، ایسا شخص میرا داماد بننے کے قابل ہے ۔ امام نے اس کے خوشگوار موڈ کو دیکھتے ہوئے کہا : میری یہ بات ذرا غور سے سنیں اس میں ایک برائی بھی ہے ۔ اس نے چونک کر کہا وہ کیا ؟ آپ نے فرمایا : وہ شخص یہودی ہے ۔ یہ سن کر وہ شخص بدکا اور کہنے لگا ارے یہودی ہے ۔ اے ابو حنیفہ! کیا آپ میری بیٹی یہودی کے نکاح میں دینا چاہتے ہیں ؟ اللہ کی قسم ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا ۔ میں اپنی بیٹی کی شادی کسی یہودی کے ساتھ کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا خواہ اس میں زمانے بھر کی خوبیاں جمع کیوں نہ ہو جائیں ۔ امام ابو حنیفہؒ نے کہا ۔ اب کیوں اچھلتے ہو ۔ اپنی بیٹی کا یہودی کے ساتھ نکاح کرنے سے کیوں اتنا بدکتے ہو۔ تجھے یہ کہتے ہوئے قطعا شرم نہ آئی کہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیوں کی شادی ایک یہودی سے کر دی تھی ۔ وہ شخص یہ باتیں سن کر کانپنے لگا ۔ او رفوراً پکار اٹھا الہی میری توبہ ، مجھے بخش دے یہ بری بات جو میری زبان سے نکلی یہ افتراء اور بہتان جو میں نے باندھا الہی مجھے معاف کر دے ۔ بلاشبہ تو بخشنے والا مہربان ہے ۔

 ٭٭٭

            ایک دفعہ کا واقعہ ہے ضحاک شاری نامی ایک خارجی امام ابو حنیفہ کے پاس آیا۔ او راس نے آتے ہی کہا اے ابو حنیفہ! اللہ سے معافی مانگو ۔ توبہ کرو ۔ آپ نے پوچھا میں نے کیا جرم کیا ہے جس کی معافی مانگوں ۔ خارجی نے کہا : آپ نے حضرت علی ؓ اور امیر معاویہؓ کے مابین پیدا ہونے والے اختلاف میں تحکیم کے جواز کا فتوی دیا ہے ۔ امام ابو حنیفہ نے کہا کہ تم اس مسئلے پر میرے ساتھ مناظرہ کرنا چاہتے ہو ۔ خارجی نے کہا ہاں میں تیار ہوں ۔ امام نے کہا : ہمارے درمیان ہونے والے مناظرے کا فیصلہ کون کرے گا ؟ خارجی نے کہا : جس کو آپ چاہیں جج بنا لیں ۔ اما م ابو حنیفہ نے خارجی کے ساتھیوں پر نظر دوڑائی اور فرمایا اس کو حکم بنا لیں ۔ میں آپ کے ساتھی کو جج بنانے پر راضی ہوں کیا تم بھی راضی ہو ۔ خارجی خوش ہو گیا اور اس نے کہا مجھے منظور ہے ۔ امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا بڑے افسوس کی بات ہے ۔ تم آج خود میرے اور اپنے درمیان ہونے والے جھگڑے کا فیصلہ کرنے کے لیے تحکیم کو جائز قرار دیتے ہو ۔ اور اللہ کے دو عالی شان صحابہ کے درمیان ہونے والے اختلافات کو مٹانے کی خاطر تحکیم کا انکار کرتے ہو ۔ مجھے افسوس ہے تیری عقل و دانش پر ۔ اور تیرے انداز فکر پر ۔ یہ سن کر خارجی ششدر رہ گیا اور اسے کوئی جواب سجھائی نہ دیا ۔

 ٭٭٭

            ایک روز سرزمین اسلام میں شر کا بیج بونے والا گمراہ کن فرقہ جہمیہ کا سربراہ جہم بن صفوان امام ابو حنیفہ سے ملنے آیا۔ اس نے کہا میں آپ کے ساتھ چند ضروری باتیں کرنے کے لیے آیا ہوں ۔ امام ابو حنیفہ نے کہا تمہارے ساتھ بات کرنا معیوب ہے ۔ جن نظریات کا تو حامل ہے اس میں غور وخوض او ربحث و تمحیص آگ کا بھڑکتا ہوا شعلہ ہے ۔ جہم نے کہا یہ آپ نے فیصلہ مجھ پر کیسے صادر کر دیا ۔ حالانکہ اس سے پہلے آپ مجھ سے نہ کبھی ملے ہیں اور نہ ہی آپ نے میری کبھی کوئی بات سنی ہے ۔ امام نے فرمایا تمہاری بہت سے باتیں مجھ تک پہنچ چکی ہیں ۔ جن کا صدور کسی مسلمان سے ممکن نہیں۔ جہم نے کہا : کیا تم غیب کی بنیاد پر فیصلہ دیتے ہو ۔ امام ابو حنیفہ نے فرمایا : تیرے نظریات لوگوں میں عام پھیل چکے ہیں ۔عام و خاص بخوبی ان نظریات سے واقف ہو چکے ہیں ۔ اس بنا پر میرے لیے تیرے بارے میں یہ فیصلہ کرنا جائز ہے ۔ کیونکہ یہ درجہ تواتر کو پہنچ چکے ہیں۔ جہم نے کہا : میں آپ سے صرف ایمان کے بارے میں سوال کرنا چاہتا ہوں ۔ امام نے ارشاد فرمایا : ابھی تک تجھے ایمان کا پتا نہیں چلا کہ آج اس کے بارے میں مجھ سے پوچھنا چاہتے ہو ؟ جہم نے کہا : نہیں ، مجھے ایمان کا تو علم ہے لیکن اس کے چند پہلوؤں میں چند شکوک وشبہات ہیں ۔ امام ابو حنیفہ نے فرمایا : ایمان میں شک و شبہ کفر ہے ۔ جہم نے کہا : آپ کے لیے یہ درست نہیں کہ مجھے اس وقت تک کفر کے ساتھ منسلک کرو جب تک میری طرف سے کوئی ایسی بات معلوم نہ کر لو جو کفر کے مترادف ہو ۔ امام ابو حنیفہ نے فرمایا : چلو پوچھو جو تم پوچھنا چاہتے ہو ؟ جہم نے کہا مجھے کوئی ایسا شخص بتائیے جس نے اللہ کو اپنے دل سے پہچانا ہو ۔ اور اس نے یہ جان لیا ہو کہ اللہ ایک ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، کوئی ہمسر نہیں اور اس نے اللہ کو اس کی صفات کے ذریعے پہچانا ہو ۔ حالانکہ اس جیسی کوئی چیز نہیں ۔ پھر وہ شخص اس حالت میں مر گیا کہ اس نے اپنی زبان سے ایمان کا اعلان نہیں کیا ۔ کیا وہ شخص مومن مرا یا کافر ؟ امام ابو حنیفہ نے فرمایا : اس کی موت کفر کی حالت میں ہوئی۔ وہ جہنمی ہو گا ۔ جبکہ اس نے اپنی زبان سے اس ایمان کا اقرار نہیں کیا جس کی معرفت اس کے دل نے حاصل کر لی تھی ۔ جبکہ زبانی وضاحت کے سلسلے میں وہاں کوئی مانع اور رکاوٹ بھی نہیں ۔ جہم نے کہا وہ بھلا مومن کیوں نہیں ، اس نے تو اللہ کی معرفت اسی طرح حاصل کی جیسا کہ کرنے کا حق ہوتا ہے۔ امام ابو حنیفہ نے فرمایا : اگر تم قرآن کو حجت مانتے ہو ، قرآن پر تیرا ایمان ہے تو میں قرآن حکیم سے دلائل پیش کروں اور اگر قرآن پر تیرا ایمان نہیں تو میں عقلی دلائل سے اپنی یہ بات ثابت کروں ۔ جہم نے کہا میں قرآن کو حجت مانتا ہوں ۔ اور قرآن کی صداقت پر میرا ایمان ہے ۔ امام ابو حنیفہ نے فرمایا : اللہ سبحانہ وتعالی نے ایمان کو جسم انسانی کے دو اعضا کے ساتھ منسلک کر دیا ہے ۔ دل اور زبان ایمان کی صحت کے لیے ان دونوں کا اعتراف و اقرار ضروری ہے ۔ صرف ایک کا اعتراف قابل قبول نہیں ہو گا ۔ کتاب اللہ اور حدیث میں اس کی وضاحت ملتی ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :

            واذا سمعوا ما انزل الی الرسول تفیض من الدمع مما عرفوا من الحق یقولون ربنا آمنا فاکتبنا مع الشاھدین ومالنا لا نومن باللہ وما جاء نا من الحق نطمع ان یدخلنا ربنا مع القوم الصالحین۔ فا ثابھم اللہ بما قالوا جنات تجری من تحتھا الانھار خالدین فیھا وذلک جزاء المحسنین (المائدہ ۷۵) انہوں نے اپنے دل سے حق پہچان لیا تھا ۔ اور اپنی زبان سے اس کا اقرار بھی کیا ۔ اللہ تعالی نے انہیں ان کے زبانی اعتراف کی بنا پر ایسے باغات میں داخل کیا جن میں نہریں بہتی ہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالی کا ارشا د ہے :

            قولوا آمنا باللہ وما انزل الینا وما انزل الی ابراھیم واسماعیل واسحاق ویعقوب والاسباط وما اوتی موسی وعیسی وما اوتی النبیون من ربھم ( البقرۃ: 134 ) اللہ نے انہیں زبانی اقرار کا حکم دیا صرف دلی معرفت پر اکتفا نہیں کیا ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : قولو الا الہ الا اللہ تفلحون ۔تم اقرار کرو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں کامیاب ہو جاؤ گے ۔ آپ نے صرف دلی معرفت کو فلاح و کامیابی کا معیار قرار نہیں دیا بلکہ اس کے ساتھ زبانی اقرار کو بھی لازمی قرار دیا۔ اسی طرح آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا : یخرج من النار من قال لا الہ الا اللہ ۔جس نے لا الہ الا اللہ کہا وہ جہنم سے نکل جائے گا ۔ اس فرمان میں یہ نہیں کہا کہ جس نے اللہ کو دل سے پہچان لیا وہ جہنم سے باہر آئے گا ۔ اگر ایمان کا تعلق صرف دل سے ہوتا ،زبانی اقرار کی کوئی حیثیت نہ ہوتی تو ابلیس بڑا مومن ہوتا وہ اپنے رب کو پہچانتا تھا کہ اس نے اسے پیدا کیا وہی اسے مارے گا ، وہی اسے زندہ کرے گا ، اسی نے راندہ درگاہ کیا ۔ اللہ تعالی نے اس کا مکالمہ قرآن میں بیان کیا ہے ۔ خلقتنی من نار وخلقتہ من طین (الاعراف : 12 ) تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس آدم کو تو نے مٹی سے پیدا کیاہے ۔ ابلیس نے یہ کہا : رب فانظرنی الی یوم یبعثون (الحجر36 ) میرے رب مجھے قیامت تک مہلت دے دیجیے ۔ اس نے یہ بھی کہا : فبما اغویتنی لا قعدن لھم صراطک المستقیم جیسا کہ تو نے مجھے گمراہ کیا میں بھی تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا ۔ امام ابو حنیفہ نے فرمایا : اگر تیرا خیال درست ہوتا تو اکثر کافر مومن کہلاتے کیونکہ وہ اپنے دلوں سے رب تعالی کو پہچانتے تھے جبکہ اپنی زبانوں سے اقرار نہیں کرتے تھے ۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ۔ و جحدوا بھا واستیقنتھا (النمل:14 ) دیکھیے ان کے دلی یقین کی بنا پر انہیں مومن قرارنہیں دیا بلکہ انکے زبانی انکار کی وجہ سے انہیں کافر قرار دیا گیا ہے ۔ امام ابو حنیفہ مسلسل قرآن و حدیث کے دلائل دیے جا رہے تھے جنہیں سن کر جہم کے چہرے پر پریشانی و پشیمانی کے آثار واضح دکھائی دے رہے تھے ، دلائل کی بھرمار سن کر وہ یہ کہتے ہوئے کھسکنے لگا کہ آپ نے مجھے بھولا ہوا سبق یاد دلا دیا میں پھر کبھی دوبارہ آپ کے پاس آؤں گا ، یہ کہہ کر وہ چل دیا اس کے بعد اس نے نہ آنا تھا اور نہ ہی وہ آیا ۔

             ایک دفعہ امام ابو حنیفہ کی ملاقات ملحدین کے ساتھ ہوئی جو وجود باری تعالی کے منکر تھے ، آپ نے ان سے پوچھا ایسی کشتی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو سازو سامان سے بھری ہوئی ہو اور وہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طوفانی لہروں میں گھری ہوئی ہو ، تیز آندھی کے تھپیڑے چاروں طرف سے اس سے ٹکرا رہے ہوں لیکن اس کے باوجود وہ سیدھے راستے پر ہی اپنی منزل کی طرف بڑے اطمینان سے چلی جا رہی ہو اس میں کوئی اضطراب ، خلل یا انحراف کا کوئی شائبہ تک نہ ہو اور نہ اس میں کشتی کو چلانے والا کوئی ملاح موجود ہو ، کیا یہ بات ماننے میں آتی ہے ۔ سب نے بیک زبان ہو کر کہا کوئی عقلمند اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہو گا ۔ آپ نے فرمایا سبحان اللہ ۔ تم اس بات کا توانکار کر رہے ہو کہ سمندر کی سطح پر ایک کشتی بغیر کسی ملاح کے سیدھی سمت چل ہی نہیں سکتی اور اس بات کا تم بغیر سوچے سمجھے اقرار کر رہے ہو کہ اتنی بڑی کائنات جس میں ساتوں آسمانوں کی وسعتیں اور زمین کی گہرائیاں، پہاڑوں کے سلسلے ، سمندروں کے گہرے پانی اور دریاؤں کے بہاؤ بغیر کسی صانع کے معرض وجود میں آگئے ۔ اور بغیر کسی محافظ کے درست سمت اور اپنے دائرے میں رہ کر اپنا فرض سر انجام دے رہے ہیں ۔ کوئی اس کی تدبیر کرنے والا نہیں ، کوئی ان کی حفاظت کرنے والا نہیں۔ افسوس تمہاری عقل پر صد حیف تمہاری سوچ پر۔

            امام ابو حنیفہؒ نے زندگی بھر دین کا دلائل سے دفاع کیا اور اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے دین کی بھرپور خدمت کی ۔ منطق کو ذریعہ اظہار بناتے ہوئے بڑے بڑے جغادری مناظرہ کرنے والوں کے دانت کھٹے کیے ۔ جب موت کا وقت قریب آیا تو آپ نے وصیت کی کہ مجھے پاکیزہ جگہ میں دفن کیا جائے ۔ ایسی جگہ میں دفن کرنے سے اجتناب کیا جائے جس میں غصب کا کوئی شائبہ تک بھی ہو ۔ جب آپ کی وصیت حاکم وقت منصور تک پہنچی ۔ تو اس نے برملا اعتراف کرتے ہوئے کہا : امام ابو حنیفہؒ کی زندگی بھی قابل رشک اور ان کی موت بھی قابل رشک ہے ۔ انہوں نے نہ اپنی زندگی میں ہمیں انگشت نمائی کا کبھی موقع دیا اور نہ موت کے وقت ۔ اللہ ان پر رحم فرمائے اور ان پر رحمت کی برکھا برسائے ۔ امام ابو حنیفہؒ نے یہ بھی وصیت کی کہ مجھے حسن بن عمارہ غسل دے ۔ وصیت کے مطابق انہوں نے بڑے اہتمام سے غسل دیا اور کہا : اے ابو حنیفہ ! اللہ تجھ پر رحم فرمائے ، تجھے اپنی جوار رحمت میں جگہ دے ۔ اور ان کارناموں کی بنا پر بخش دے جوتو نے دین کی سربلندی کے لیے سرانجام دیے۔

آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے ۔