مغرب کا فکر ی و تہذیبی چیلنج اور علما کی ذمہ داریاں

مصنف : ڈاکٹر محمود احمد غازی

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : دسمبر 2007

            اس وقت دنیائے اسلام جس دور سے گزر رہی ہے، یہ دور اسلام کی تاریخ کا انتہائی مشکل دور ہے۔امت مسلمہ کو جو مشکلات آج درپیش ہیں شاید ماضی میں اتنی مشکلات کبھی درپیش نہیں ہوئیں۔ ایک اعتبار سے امت مسلمہ کی پوری تاریخ بحرانوں کی تاریخ ہے۔رسول اللہؐ کے دورِ نبوت کے آغاز سے لے کر، جب آپ دارِ ارقم میں قیام فرما تھے، آج تک کوئی صدی اور صدی کا کوئی حصہ یا کوئی عشرہ ایسا نہیں گزرا جس کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ اس میں مسلمانوں کوکوئی مشکل درپیش نہیں تھی، لیکن ان ساری مشکلات میں اور آج کی مشکل میں ایک بڑا بنیادی فرق ہے۔ ماضی کی جتنی مشکلات اور پریشانیاں تھیں، وہ عموماً زندگی کے کسی ایک گوشے تک محدود ہوتی تھیں۔ مسلمانوں کو عسکری اعتبار سے کسی دشمن کا مقابلہ کرنا پڑا، پیچھے ہٹنا پڑا، پسپائی اختیار کرنا پڑی، یہ ایک عسکری شکست یا عسکری ہزیمت کا معاملہ تھا یا مسلمانوں کی کوئی حکومت کمزور ہوئی ، غیر ملکی قوتیں مضبوط ہو گئیں اور مسلمان سیاسی طور پر پسماندگی کا شکار ہوئے،یہ سیاسی میدان میں کمزوری تھی۔ اس طرح کی کمزوریاں جو عموماً سیاسی ، مالی ، عسکری یا مادی ہوتی تھیں، تقریباً ہر دور میں پیش آتی رہی ہیں لیکن ان سارے ادوار میں مسلمانوں کا خاندان، مسلمانوں کی تعلیم، مسلمانوں کا نظامِ تربیت اور مسلمانوں کی جو اندرونی ساخت اور تشکیل تھی، وہ اکثر و بیشتر بیرونی خطرات اور حملوں سے محفوظ رہی۔تاتاریوں کے حملے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دنیائے اسلام پر اس سے برا وقت کوئی نہیں آیا اور یقینا وہ برا وقت تھا کہ افغانستان کے مشرقی علاقوں سے لے کر مصر کی حدودتک اور ترکی کے جنوبی علاقوں سے لے کر جزیرۃ العرب کے وسط تک ، یہ سارا علاقہ تاتاریوں کی تاخت و تاراج کی آماجگاہ تھا۔ انہوں نے ہزاروں علمائے کرام کو شہید کیا اور بڑے بڑے جید ترین اکابرِ اسلام ان کی تلوار کا نشانہ بنے۔ اس درجے کے انسان کہ جن کی پیروی پر مولانا روم جیسے آدمی نے فخر کا اظہار کیا ہے، ایسے اونچے اونچے لوگ تاتاریوں کی تلوار کا شکار ہوئے۔ کتب خانے انہوں نے جلا دیے، شہر برباد کر دیے، یہاں تک کہ ابنِ کثیرؒ نے اپنی مشہور کتاب البدایہ و النھایہ میں لکھا ہے کہ اس زمانے میں مسلمانوں کی شکست خوردگی اور پست ہمتی کا یہ عالم تھا کہ ‘‘ اذا قیل لک ان التتار انھزموافلا تصدق’’یعنی اگر تمہیں یہ خبر دی جائے کہ تاتاریوں کو شکست ہوگئی ہے تو اس پر یقین نہ کرو۔ گویا تاتاریوں کی شکست ناقابلِ تصور سمجھی جاتی تھی اور یہ بات ضرب المثل بن گئی تھی، لیکن اس ساری تباہی اور بربادی کے باوجود تاتاریوں کے ہاتھوں شکست و ریخت کا دارومدار سارے کا سارا مسلمانوں کی عسکری اور سیاسی کمزوری پر تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو سیاسی نقصان پہنچایا، عسکری نقصان پہنچایا، لیکن ان کے پاس کوئی دین نہیں تھا، کوئی پیغام نہیں تھا، کوئی تہذیب نہیں تھی، کوئی مذہب نہیں تھا، کوئی فکری ایجنڈا نہیں تھا، اس لیے مسلمانوں کی تہذیب و تمدن، تربیت اور خاندانی نظام ان حملوں سے محفوظ رہا اور ان میں سے کوئی چیز متاثر نہ ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کی اندرونی قوت نے ان کا ساتھ دیا اور بہت جلد وہ تاتاریوں کی شکست کے نتائج اور ثمرات بد سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہی کیفیت بقیہ بہت سے معاملات کی بھی رہی۔

            آج جو صورتِ حال در پیش ہے اور آج سے نہیں، پچھلے ڈیڑھ سو سال سے درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ ہر آنے والا دن، ہر نکلنے والا سورج خطرے کی یا پریشانی کی ایک نئی جہت لے کر آتا ہے۔ آج اسلامی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو خطرات سے دو چار نہ ہو۔ فرد کے ذاتی کردار اور تربیت کا معاملہ ہو، گھر کے اندر ماں اور بچوں کے درمیان کا معاملہ ہو، میاں بیوی کے تعلقات کے معاملہ ہو، گھر کی خواتین کے رویے کا معاملہ ہو، تعلیم و تربیت کا معاملہ ہو، یا مساجد کے اندر جاری سرگرمیوں اور معمولات کا معاملہ ہو، ان میں سے ہر چیز آج براہِ راست مغربی حملے کی زد میں ہے۔ تاتاریوں نے شاید کبھی یہ نہیں پوچھا ہوگا کہ جامعہ ازہر میں کیا پڑھا جارہا ہے، مسلمانوں کی نصاب کی کتابوں میں کیا لکھا جا رہا ہے یا فقہ کی کتابوں میں کیا لکھا ہے۔ انہوں نے یہ چیز زیر بحث لانے کی کوشش نہیں کی۔ اسی طرح انگریز جب شروع میں یہاں آئے تو انہوں نے بھی ان معاملات پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگریز ڈیڑھ دو سو سال یہاں رہنے کے باوجود مسلمانوں کی اندرونی ساخت بڑی حد تک مغربی اثرات سے محفوظ رہی اور ایسے لوگ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں تھے جن کی زندگی کا ایک لمحہ یا ایک گوشہ بھی انگریزی اثرات سے متاثر نہ ہُوا۔

            میرے خاندان کے ایک بزرگ تھے، حافظ محمد اسماعیل جو بڑے عالم اور محدث تھے۔ مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ کے والد تھے اور رشتے میں میرے والد کے چچا تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کسی انگریز کی شکل نہیں دیکھی، انگریزی کا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا اور اپنے گھر میں کسی کو انگریزی کا لفظ استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ہندستان میں پہلے شاید ٹماٹر نہیں ہوتا تھا، بعد میں یہاں ٹماٹر آیا تو یہ لفظ شاید انگریزی کے tomatoکی اردو شکل تھی۔ حافظ اسماعیل صاحب ٹماٹر کا لفظ استعمال نہیں کرتے تھے اور اگر کوئی یہ لفظ بولتا تھا تو اس پر نا خوشی کا اظہار کرتے تھے۔ انہوں نے اس کا نام لال بینگن رکھا ہوا تھا۔ میرے والد صاحب بتاتے تھے کہ ایک دن گھر میں انہوں نے پوچھا کہ سالن میں کیا ڈالا ہے؟ ان سے کہا گیا کہ ٹماٹر ڈالا ہے تو وہ سخت ناراض ہوئے کہ نصرانیت میرے گھر میں گھس آئی؟ اس کولال بینگن کیوں نہیں کہتے؟

            بظاہر یہ بات آج ہمیں لطیفہ معلوم ہوتی ہے، لیکن اگر مسلمانوں میں کچھ لوگ اتنی شدت کے ساتھ مغربی اثرات میں رکاوٹ پیدا نہ کرتے تو مغربی اثرات آج سے سو سال پہلے اسی طرح لوگوں کے گھروں میں گھس جاتے جیسا کہ آج گھسے ہوئے محسوس ہورہے ہیں۔ اس طرح کی مثالیں ایک دو نہیں، ہزاروں ہیں اور سینکڑوں، لاکھوں بلکہ کروڑوں انسان ایسے ہیں جنہوں نے مغربی اثرات کے خلاف مزاحمت کی اور مسلمانوں کو ان سے محفوظ رکھنے کی سعی کی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ انہوں نے مغرب کی مثبت چیزوں کو بھی روکا۔ یقینا بعض باتیں مغرب میں مثبت بھی تھیں جن کے ثمرات سے مسلمان محروم رہے، لیکن آج یہ بات کہنا اور تبصرہ کرنا تو بڑا آسان ہے کہ فلاں بزرگ نے پابندی لگا دی تھی اور مغربی اثرات سے مسلمانوں کو محروم رکھا، لیکن آج سے سو سال پہلے کے ماحول میں جو انسان طوفان کے سامنے کھڑا ہے، وہ اس کو نظر آرہا ہے اور اس کے اثرات و ثمرات اس کے سامنے ہیں، وہ ایک فیصلہ کر لے اور فیصلے کے نتیجے میں بعض منفی اور بیشتر مثبت چیزیں سامنے آئیں تو آج ہم یہ کہنے میں حق بجانب نہیں ہیں کہ فیصلہ کرنے والے کو کیا فیصلہ کرنا چاہیے تھا۔ ویسے بھی ‘لغو’ سے حضورؐ نے منع فرمایا ہے۔ ماضی میں جس نے کوئی فیصلہ کیا، اس نے اس کی ذمہ داری بھی لی۔ بعض لوگوں نے ایک فیصلہ کیا تو بعض نے دوسرا۔ دونوں کے ثمرات و نتائج آج ہمارے سامنے ہیں۔ ہم نتائج پر تو بات کر سکتے ہیں لیکن ماضی کو مستقبل کی طرف سے مشورہ دینا کہ ان کو کیا کرنا چاہیے تھا ، یہ ایک غیرضروری مشورہ ہے جس کا کوئی نتیجہ مستقبل میں نکلنے والا نہیں۔

            آج کی صورت حال یہ ہے کہ جن حضرات نے سوسال پہلے امت مسلمہ کو مغرب کے اثرات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی تھی، وہ جذبہ اور رویہ کمزور پڑ گیا ہے اور مغرب کے اثرات کے لیے مسلمانوں کے ہر گھر کے دروازے اور ہر کمرے کی کھڑکیاں اس طرح کھلی ہیں کہ اس میں مغرب کے کسی اچھے یا برے اثر کو آنے سے آپ نہیں روک سکتے۔ ہمارے ہاں بہت سے حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ مغربی تہذیب کے مثبت پہلوؤں کو ہمیں اپنے اندر آنے کا موقع دینا چاہیے اور اس کے منفی اثرات کا راستہ روکنا چاہیے۔ یقینا یہ درست رویہ ہے اور ہر مسلمان اس سے اتفاق کرے گا۔ یہ ‘‘خذما صفا ودع ما کدر’’ کا اصول جس سے مسلمانوں نے ہمیشہ اتفاق کیا اور جو مسلمانوں کی فکری اور علمی تاریخ کا ہمیشہ طرہ امتیاز رہا ہے لیکن ہم میں سے بہت سے لوگ یہ اندازہ نہیں کرپاتے کہ کیا مغرب کا ایجنڈا بھی یہی ہے کہ ہم ‘‘خذما صفا ودع ما کدر’’ پر عمل کریں۔ جو چیز ہمارے لیے قابل قبول ہو، وہ ہمارے سامنے پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دیں اور جو چیز ہمارے لیے قابل قبول نہ ہو، اس کوواپس اپنی الماری میں رکھ دیں؟ حقیقت یہ ہے کہ مغرب اپنا پورا ایجنڈا یہاں لانا چاہتا ہے اور انہوں نے ہم سے زیادہ اس پر غور کیا ہے کہ ان کی تہذیب کا جو پورا پیکج ہے، اس کی کون سی چیزیں ہماری تہذیب کے لیے مفید ہیں اور کیا چیزیں اس پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہیں۔ اس پر باقاعدہ کتابیں لکھی گئی ہیں اور صرف عام سطح پر نہیں بلکہ بڑی سے بڑی اور اعلیٰ سے اعلیٰ سطح پر اس پر غوروخوض ہوا ہے۔ حتیٰ کہ اگر آپ نے سابق امریکی صدر نکسن کی کتابSeize the Moment پڑھی ہو تو اس میں اس نے پوری تفصیل سے یہ بات بیان کی ہے کہ دنیائے اسلام میں مغربی اثرات کا نفوذ کس حد تک ہے اور کس طرح ہونا چاہیے۔ یہ بات نہ صرف نکسن نے لکھی ہے بلکہ ان کے صف اول کے تمام دانشور، مفکرین اور مدبرین یہ بات لکھ رہے ہیں۔

            آج سے چند سال پہلے مجھے جرمنی میں ایک اجتماع میں جانے کا موقع ملا جس میں مختلف ممالک کے دانشور اور مفکرین مدعو کیے گئے تھے جن میں واحد مسلمان شریک تھا۔ میرے علاوہ باقی لوگ مغربی یورپ اور خاص طور پر وسطی یورپ سے بلائے گئے تھے۔ اس اجتماع کا عنوان تھا: Is Islam a threat to West and Europe? کیا اسلام مغرب اور یورپ کے لیے ایک خطر ہ ہے؟اس میں انہوں نے مجھے بلایا تھا کہ اپنے خیالات کا اظہار کروں۔ یہ کوئی ایک ہفتہ کی نشست تھی جس میں انہوں نے چودہ آدمیوں کو دعوت دی تھی۔ ایک دن میں دو آدمیوں کی گفتگو ہوتی تھی جس میں ہر شخص تفصیل سے اپنے خیالات حاضرین کے سامنے پیش کرتا تھا۔ اس میں ایک دن مجھے بھی گفتگو کرنے کا موقع ملا جس میں یہ سوال سامنے آیا کہ دنیائے اسلام میں مغربی اثرات کے حوالے سے کیا رویہ رہا ہے؟اس کے جواب میں ، مَیں نے کہا کہ عالمِ اسلام میں جب سے مغربی اثرات آئے ہیں، جس کو کم و بیش دو سو سال کا عرصہ ہو چکا ہے، اس کے بارے میں دنیائے اسلام نے تین رویے اختیار کیے ہیں۔ان میں دو رویے تو بتدریج کمزور ہورہے ہیں یا محسوس ہورہا ہے کہ وہ کمزور ہورہے ہیں اور تیسرا رویہ بڑھتا ہوا معلوم ہوتا ہے اور اس میں پچھلے پچاس سو برسوں میں قوت پیدا ہوئی ہے۔

            ایک رویہ جو سمٹ رہا ہے اور سمٹتے سمٹتے یقینا ختم ہونے کے قریب ہے، وہ ہے جس کی مثال میں نے لال بینگن اور ٹماٹر کے حوالے سے دی۔ اب شاید دنیائے اسلام میں اس طرح کی مزاحمت کرنے والے لوگ موجود نہیں بلکہ اس طرح کی مزاحمت کی افادیت کے قائل بھی مَیں سمجھتا ہوں کہ نہیں رہے۔ اگر ہیں تو بہت تھوڑے لوگ ہیں جن کا کوئی قابلِ ذکر اثر معاشرے میں نہیں ہے۔ یہ وہ رویہ تھا جو ابتدا میں بہت مضبوط تھا لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتا گیا۔

            دوسرا رویہ جو شروع میں بہت قوت سے سامنے آتا محسوس ہوتا تھا، مسلمانوں کی اکثریت نے اس سے بھی زیادہ اتفاق نہیں کیا اور یہ رویہ بھی کمزور ہوتا محسوس رہا ہے۔ یہ وہ رویہ ہے جو مکمل طور پر مغرب کے رنگ میں رنگ جانے کا رویہ ہے جس نے یہ سمجھا کہ مسلمان اگر مغرب کے ساتھ سو فیصد ہم آہنگی کر لیں تو شاید ان کے تمام مسائل حل اور مشکلات دو ہوجائیں گی۔ اس رویے کے ترجمان ۱۹ ویں صدی کے اواخر اور ۲۰ ویں صدی کے آغاز میں دانشوروں میں بھی، سیاسی لیڈروں میں بھی اور عام سطح پر بھی کثرت سے پائے جاتے تھے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ یہ رویہ بھی کمزور ہورہا ہے۔

            تیسرا رویہ جو آغاز میں بہت کمزور اور تقریباً برائے نام تھا، اب دنیائے اسلام میں اس نے اپنی جگہ بنا لی ہے اور مسلمان مفکرین اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد اس کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ وہی ‘‘خذما صفا ودع ما کدر’’ کا رویہ ہے کہ مغربی تہذیب کی مثبت پہلوؤں سے مسلمانوں کو استفادہ کرنا چاہیے، ان کی سائنس ان کی ٹیکنالوجی، ان کی سہولتیں، یہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول ہونی چاہییں اور ان کو اپنانا چاہیے جبکہ ان کے جو منفی پہلو ہیں، مثلاً اخلاقی اقدار کے متعلق ان کے خیالات و نظریات یا سیکولر ازم اور لامذہبیت، یامردوزن کی آزادی کا تصور جو ان کے ہاں ہے، یہ چیزیں دنیائے اسلام کو قبول نہیں کرنی چاہییں۔ یہ رویہ پہلے بہت محدود تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس میں وسعت پیدا ہوئی ہے اور آج دنیائے اسلام میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس رویے پر قائم محسوس ہوتی ہے۔

            ۱۹۹۲ء، ۱۹۹۳ء میں مذکورہ اجتماع میں جب میں نے ایک سوال کے جواب میں مذکورہ تجزیہ تفصیل سے بیان کیا تو اس کے جواب میں اجتماع کے شرکا نے، جن میں فرانسیسی نمائندے بھی شامل تھے، جرمن بھی شامل تھے اور آسٹریلیا کے لوگ بھی تھے، تقریباً بالاتفاق مجھے Controvertکیا اور کہا کہ ٹھیک ہے، آپ اس رویے کو درست سمجھتے ہوں گے لیکن مغرب ان شرائط پر اپنی ٹیکنالوجی اور اپنی تہذیب و تمدن سے آپ کو استفادہ کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہوگا۔سچی بات یہ ہے کہ اس وقت پہلی مرتبہ یہ پہلو میرے سامنے آیا۔ اس سے پہلے میرا ذہن اس طرف متوجہ نہیں تھا کہ آیا مغرب بھی اس بات پر تیار ہے یا نہیں کہ آپ کی شرائط پر اپنی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کی اجازت دے۔یہ ایک پورا پیکج ہے جس کو آپ کو جوں کا توں قبول کرنا پڑے گا اور اس میں وہ آپ کو اخذ و انتخاب Pick and Chooseکی اجازت نہیں دیں گے۔ اس وقت میں نے یہ سمجھا کہ یہ دانشور اور مفکرین شاید اپنی Mainstreamکی ترجمانی نہیں کر رہے اور مغربی تہذیب میں جو فیصلہ کن قوتیں ہیں، ان کی زبان نہیں بول رہے، جیسے ہر شخص اپنی تہذیب کے بارے میں ایک عصبیت کا رویہ رکھتا ہے، یہ بھی اپنی تہذیب کے بارے میں ایک عصبیت اور حمیت رکھتے ہیں اور اس عصبیت کی وجہ سے یہ بات ان کو پسند نہیں آئی کہ ہم ان کی تہذیب کے بعض پہلوؤں کو منفی قرار دے کر مسترد کرنا چاہتے ہیں۔ ایک کمزور اور غریب فقیر آدمی کسی دولت مند آدمی سے یہ کہے کہ آپ کی کوٹھی یا محل کی فلاں فلاں چیزیں مجھے غلط معلوم ہوتی ہیں او رمیں انہیں مسترد کرتا ہوں تو ظاہر ہے کہ اسے اچھا نہیں لگے گا اور وہ ا س کو بے وقوف سمجھے گا۔ میرا تاثر یہ تھا کہ شاید وہ اس نفسیاتی کیفیت میں میری بات کی تردید کر رہے ہیں لیکن پچھلے بارہ پندرہ برسوں میں مغرب کے بہت سے لوگوں سے ملنے، ان کی باتیں سننے اور ان کی تحریریں پڑھنے کا اتفاق ہوا اور اب مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ ان کی طے شدہ پالیسی ہے جو انہوں نے سوچ سمجھ کر اختیار کی ہے کہ دنیائے اسلام اپنے آپ کو مکمل طور پر مغرب کے رنگ میں رنگے اور مکمل طور پر مغربی ایجنڈے کو اختیار کرے اور اگر وہ اس کے لیے تیار نہ ہو تو مغربی تہذیب کے فوائد یا مثبت اثرات سے مسلمانوں کو متمتع ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔ یہ بات جو ۱۹۹۳ء سے پہلے میرے علم میں نہیں تھی، اب وقت کے ساتھ ساتھ روزِ روشن کی طرح یوں واضح ہے کہ مجھے یوں لگتا ہے کہ یہ پوری دنیائے مغرب کا ایک طے شدہ فیصلہ ہے کہ پوری دنیائے اسلام پر مغرب کے ایجنڈے کو سو فیصد مسلط کر دیا جائے۔

            مغرب کا ایجنڈا ایک ہمہ گیر ایجنڈا ہے اور اس میں ہر چیز شامل ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ہاں جو بہت سے کام ہو رہے ہیں، وہ محض اتفاق سے یامسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سے ہورہے ہیں۔ یقینا مسلمانوں میں کمزوریاں بھی ہیں اور ان کی دینی حمیت میں کمی بھی آئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ بالادست قوتیں بھی ہیں جو طے شدہ پروگرام کے تحت آگے بڑھ رہی ہیں اور دنیائے اسلام کو ایک خاص رخ پر چلانا چاہتی ہیں۔ اب مسلمان کس حد تک اس میں ساتھ جانے کو تیار ہیں ، مسلمان دانشور جو سمجھتے ہیں کہ مغرب کی مثبت چیزوں سے اتفاق کریں اور منفی چیزوں کو مسترد کردیں، وہ کس حد تک اس میں کامیاب ہوں گے اور مستقبل کیا خبر لائے گا، یہ اللہ ہی کو بہتر معلوم ہے لیکن اس رویے میں کامیابی کا سارا دارومدار مسلمانوں کے فہمِ صحیح پر ، مسلمانوں کی بصیرت ا ور ان کے عزم و ارادے پر ہے اور اس کے لیے جو چیز سب سے پہلے درکار ہے، وہ خود دنیائے اسلام میں اسلامی تہذیب، اسلامی علوم و فنون اور معارفِ اسلامی سے گہری اور ماہرانہ واقفیت ہے۔ جب تک شریعت اور شریعت کے پیغام اور تعلیم میں یہ گہری بصیرت اور ماہرانہ واقفیت پیدا نہیں ہوگی، اس وقت تک کوئی ایسی بنیاد فراہم نہیں ہوسکتی جس پر آگے چل کر عمارت کھڑی کی جاسکے۔

            ایک زمانہ تھا کہ دنیائے اسلام میں علوم و فنون کی اساس قرآن مجیدتھا۔ قرآن مجید وہ جڑ فراہم کرتا تھا جس سے علوم و فنون کا گلشن پیدا ہوا۔ یہی وہ درخت تھا جس کے برگ و بار اور ثمرات مسلمانوں کے بقیہ علوم و فنون کی صورت میں سامنے آئے۔ قرآن مجید کی حیثیت اس بنیاد اور جڑ کی ہے جس پر مسلمانوں کی ساری تعلیمی، فکری اور تہذیبی سرگرمیوں کا دارو مدار ہے۔ یہ کیفیت کم و بیش گیارہ ، بارہ سو سال رہی اور ایک ایسے نظامِ تعلیم نے جس کی اساس قرآن مجید، سنتِ رسول اور ان دونوں سے پیدا ہونے والے علوم و فنون پر تھی، امت مسلمہ کی تمام ضروریات کو پورا کیا۔ امت مسلمہ میں بڑی بڑی ریاستیں بھی قائم ہوئیں، بڑی بڑی تہذیبیں بھی سامنے آئیں اور یورپ کے کم وبیش آدھے حصے پر مسلمانوں کی حکومت رہی۔ مسلمانوں کی فوجیں آسٹریا کی حدود تک پہنچیں اور مشرقی اور جنوبی یورپ میں مسلمانوں کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ اسی طرح اسپین میں آج بھی مسلمانوں کی سات سو سالہ حکومت کے آثار موجود ہیں۔ جہانبانی کے اس پورے سلسلے میں اسلامی علوم و فنون اور وحدت پر مبنی نظام تعلیم نے مسلمانوں کے خالص دینی تقاضے بھی پورے کیے اور خالص دنیوی تقاضے بھی۔ یہ تاثر کہ دینی اور دنیوی علوم جدا جد اہیں، اسلامی تاثر نہیں، بلکہ یہ مغرب کا تحفہ اور مغربی سیکولر ازم کے باقیات و اثرات میں سے ہے۔ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں اور میں بغیر کسی تردد کے یہ بات عرض کرتا ہوں کہ جب تک یہ دو نظام الگ الگ رہیں گے، دنیائے اسلام میں سیکولر ازم کو فروغ ملتا رہے گا۔ سیکولرازم کیا ہے؟ سیکولر ازم یہ ہے کہ جوچیز مذہبی ہے، وہ مذہبی دائرے میں رہے اور جو غیر مذہبی ہے، وہ غیر مذہبی دائرے میں رہے اور ان دونوں کے درمیان کوئی اتفاق پیدا نہ ہو۔ یہ دونوں ایک نہر یا ایک دریا کے دو کنارے ہیں جو کبھی آپس میں نہیں ملتے اور ایک دوسرے کے متوازی چلتے رہتے ہیں۔ زندگی کو دو متوازن نظاموں اور دو متوازی حصوں میں تقسیم کرنا اسی کو سیکولر ازم کہتے ہیں۔ یہی لا مذہبیت اور لادینیت ہے۔ لا دینیت کسی اور چیز کا نام نہیں ہے۔

            انگریز کے زمانے میں جب Main Streamکی قیادت مسلمانوں سے چھن گئی تو اس وقت مسلمانوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ وہ اسلامی علوم و فنون کے تحفظ کے لیے ایک خالص دینی نظام تعلیم کے قیام پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ یہ ایک دفاعی حکمت عملی تھی اور امتِ مسلمہ میں مذہب کی باقیات کو بچانے کا واحد طریقہ تھا کہ مذہبی تعلیم کے نام پر جو کچھ کیا جاسکتا ہے، وہ کیا جائے اور جس حدتک مسلمانوں کی مذہبی زندگی کو برقرار رکھا جاسکتا ہے، رکھا جائے۔ اس سے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں تھا کہ دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم کے دو الگ الگ نظام موجود رہے ہوں۔چنانچہ مغلیہ دور میں جس درسگاہ اور جس نصاب تعلیم نے مجدد الف ثانی جیسا شخص پیدا کیا،اسی نظام میں نواب سعداللہ خان بھی تیار ہوا تھا جو مجدد صاحب کا کلاس فیلو تھا اور جو سلطنت مغلیہ کا وزیرِ اعظم بنا۔ وہ سلطنت مغلیہ جو موجودہ افغانستان، پاکستان، ہندستان، نیپال، بنگلہ دیش، سری لنکا، بھوٹان، سکم، برما ان سب ریاستوں پر مشتمل تھی، اس کے نظام کو اس نے شاہ جہاں کے زمانے میں کامیابی سے چلایا تھا۔ پھر استاد احمدجیسا معمار جس نے تاج محل بنایا، یہ بھی مجدد صاحب کا کلاس فیلو تھا۔ یہ تینوں ایک ہی استاد کے شاگرد تھے اور ایک ہی درسگاہ کے پڑھے ہوئے تھے۔ اب دیکھیے کہ ایک وہ شخص جس نے دنیا کی متمدن ترین سلطنت کو اس کے کامیاب ترین ادوار میں قیادت فراہم کی اور اس کانظام چلا کر دکھایا، دوسرا وہ شخص جو ہندستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مذہبی عبقری ہے، جس کی عظمت کو بیان کرنا دشوار ہے اور جس نے برصغیر کی دینی تحریکات پر اتنا گہرا اثر ڈالا کہ بعد کی کوئی دینی تحریک اور کوئی دینی سرگرمی اس کے اثر اور شخصیت کے احترام سے خالی نہیں ہے ، اور تیسرا وہ شخص جس نے دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک عجوبہ بنایا، یہ تینوں افراد ایک ہی نصاب کے پڑھے ہوئے اور ایک ہی تعلیمی نظام کی پیداوار تھے۔ یہی اسلام کا آئیڈیل اور یہی اسلام کا معیار ہے۔

            ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان بننے کے بعد ہم اس پر ازسرِ نو غور کرتے لیکن یہ کام نہ حکومتوں نے کیا اور نہ اہل علم نے اس پر ابھی تک کوئی توجہ دی ہے، لیکن اس پر جتنی جلدی ہو غور ہوجائے، اچھا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام پوری امت مسلمہ کی تاریخ کے ایک مرحلہ کی تشکیل نو کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایک نئے دور کی بنیاد رکھنے کے مترادف ہے اور میں اس کو اس سے کہیں زیادہ اہم سمجھتا ہوں جتنی اہمیت دارالعلوم دیوبند کے قیام کی تھی۔دارالعلوم دیوبند کی کاوش یا مہم ایک بدلی ہوئی صورتِ حال میں دفاعی اور وقتی کوشش تھی۔ وہ آئیڈیل صورت نہیں تھی اور نہ ہی آئیڈیل خیالات تھے۔ نہ وسائل دستیاب تھے، نہ حکومتی سرپرستی اور نہ وہاں کے فارغ شدہ حضرات کی قیادت کے لیے مناصب موجود تھے۔ معاشرہ ان کی قیادت کو ماننے اور ان سے رہنمائی لینے کے تیار نہیں تھا۔ ان کی رہنمائی مسجد اور مدرسے کے خاص دائرہ تک محدود تھی۔ اس کے لیے انہوں نے جو کچھ کیا، اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے گا ۔ جتنا دین موجود ہے، انہی کی کاوش سے موجود ہے، لیکن اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جو دین موجود ہے، اس کو زندگی کے روز مرہ کے معاملات سے Relateکردیا جائے اور اس کو معاشرے میں فعال قائدانہ کردار اداکرنے کی پوزیشن میں لایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ اہل دین کے پاس دینی علوم کا تخصص بھی موجود ہو اور جس دنیا اور جس معاشرے میں انہیں قیادت فراہم کرنی ہے، اس کے بارے میں بھی قائدانہ اور ناقدانہ واقفیت انہیں حاصل ہو۔

            جب میں یہ عرض کرتا ہوں تو بعض علما کرام یہ سمجھتے ہیں اور مجھ سے انہوں نے اس کا اظہار بھی فرمایا کہ میں اس بات کا داعی ہوں کہ دینی مدارس کو میڈیکل کالجز میں تبدیل کر دیا جائے یاوہ انجینئرنگ کے ادارے بنا دیے جائیں ایک بڑے محترم بزرگ عالم نے مجھ سے غصے میں پوچھا کہ کیا انجینئرنگ کالج میں مولوی تیار ہوتے ہیں؟ نہیں ، تو پھر دینی مدارس میں انجینئر کیوں تیار ہوں؟ لیکن یہ اعتراض درست نہیں ہے ، اس لیے کہ نہ انجینئر تیار کرنا مقصد ہے اور نہ ڈاکٹر تیار کرنا بلکہ علما کرام ہی تیار کرنا مقصد ہے لیکن نواب سعد اللہ کی طرح کے علما ۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر دور کا ایک محاورہ اور ایک زبان ہوتی ہے ۔ قرآن مجید اور سنت تو ایسی چیزیں ہیں جو ہمیشہ کے لیے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی ۔ ان کا محاورہ ہر دور کے لیے ہے او ر ہر دور کے لیے رہے گا ۔ ان کے محاورے میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ۔ وہ ہمیشہ وہی رہے گا ، اور ان کو ہمیشہ انہی کے محاورے اور انہی کی اصطلاح میں سمجھا جائے گا لیکن فقہا کرام ، شارحین حدیث اور مفسرین نے شریعت کے نصوص کو اپنے اپنے زمانے سے Relate کیا اور اپنے زمانے کے محاورے میں اس کی تعلیم کو مرتب کیا ہے ۔ یہ محاورہ حالات کے بدلنے سے بدل سکتا ہے ۔ ماضی میں بھی بدلتا رہا ہے اور آئندہ بھی بدلتا رہے گا ۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال عرض کرتا ہوں کہ وہ علما کرام جن کے پاس ٹھوس دینی علوم موجود ہیں جن کے پاس پاور ہاؤس اور اس میں قوت کا ذخیرہ موجود ہے ، چونکہ ان کا محاورہ آج کے محاورے سے مختلف ہے ، اس لیے دور جدید کا آدمی ان کے علم سے استفادہ نہیں کرتا ۔ آج سے کم وبیش 25 سال پہلے وفاقی شرعی عدالت قائم ہوئی ۔ جسٹس صلاح الدین مرحوم اس کے پہلے چیف جسٹس تھے ۔ بہت نفیس انسان تھے ۔ میرے مشورے سے انہوں نے بعض علما کرام کو وفاقی شرعی عدالت کا مشیر مقرر کیا میں نے ان سے کہا کہ ‘‘جن حضرات کو آپ نے مشیر مقرر کیا ہے جن کی تعداد 30-35 کے قریب ہے ، ان سب کو آپ کھانے کی دعوت دیں ۔’’ چانچہ انہوں نے پورے پاکستان سے ان جید علما کرام کو کھانے کی دعوت دی ۔ ایک بزرگ جو بہت ٹھوس عالم تھے ، انتہائی گہرا علم رکھتے تھے ، وہ ان کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئے ۔ چیف جسٹس صاحب نے ان سے پوچھا کہ حضرت islamic state کی minimum requirement کیا ہے؟ بالکل یہی الفاظ تھے ، یعنی کسی اسلامی ریاست ہونے کے کم سے کم تقاضے کیا ہیں ؟ اس کا وہ کوئی جواب نہیں دے پائے ۔ شاید سمجھے نہ ہوں ۔ جسٹس صاحب نے دوبارہ اردو میں پوچھا تو وہ پھر بھی اس کا صحیح جواب نہیں دے پائے ۔ میں تھوڑا فاصلے پر تھا ۔ مجھے خیال ہوا کہ صف اول کے عالم ہیں، اگر ان کے اس سوال کا جواب نہ دے سکے تو ہو سکتا ہے کہ علما کے بارے میں ایک منفی تاثر جسٹس صاحب کے دل میں بیٹھ جائے ۔ میں نے درمیان میں مداخلت کی گستاخی کرتے ہوئے کہا کہ شاید چیف جسٹس صاحب یہ پوچھنا چاہ رہے ہیں ، دارالاسلام، کی تعریف کیا ہے ؟ اب انہوں نے فوراً جواب دیا اور بڑے مدلل انداز میں جواب دے کر چیف جسٹس صاحب کو بڑی حد تک مطمئن کر دیا ۔ اس وقت یہ بات مجھ پر واضح ہوئی کہ علمائے کرام کے پاس علم تو ہے ، لیکن محاورہ نہیں ۔

            محاورہ ہر زمانے کا مختلف ہوتا ہے اور ہر زمانے کے علوم سے متاثر ہوتا ہے ۔ جس زمانے میں منطق نہیں آئی تھی ، آپ اس زمانے کی اصول فقہ کی کتابیں دیکھیں کہ ان کا انداز کیا تھا ؟ امام شافعیؒ کی کتاب الرسالہ پڑھیں ۔ اس کے بعد آپ خود شافعی فقیہ امام غزالیؒ کی المستصفی پڑھیں ۔ دونوں کے محاورے میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ شاہ ولی اللہؒ نے اسرار حدیث پر کتاب لکھی ہے ۔ اسرار حدیث پر معالم السنۃ میں امام خطابی نے بھی لکھا ہے ۔ شاہ ولی اللہ نے حجۃ اللہ البالغہ میں اس کا اعتراف کیا ہے ۔ آپ ان دونوں کتابوں کو پڑھیں تو دونوں کے محاورے میں زمین آسمان کا فرق محسوس ہو گا ۔

            شاہ ولی اللہؒ کا محاورہ سارے کا سارا یونانی فلسفے پر مبنی ہے اور یونانی فلسفہ جیسا کہ برصغیر میں پڑھایا جاتا تھا ، میبذی اور شرح ھدایۃ الحکمۃ اور فلسفہ کے بارے میں جو کتابیں اس وقت رائج تھیں ، ان سب کے اثرات اور مصطلحات شاہ صاحب کی حجۃ اللہ البالغہ میں موجود ہیں ۔ اب خالص علم حدیث ہے اور شاہ صاحب علم اسرار حدیث پر بات فرما رہے ہیں لیکن منطق اور فلسفے کے محاورے میں جو بات خطابی نے کی ہے ، وہی بات شاہ صاحب کہہ رہے ہیں اور اسی کو آگے بڑھا رہے ہیں لیکن اگر خطابی ہوتے تو شاید ایک لفظ نہ سمجھتے کہ شاہ صاحب کیا کہہ رہے ہیں جیسا کہ چیف جسٹس صاحب کی بات وہ بزرگ عالم نہیں سمجھ پائے ۔

            اگر آپ کے پاس ریڈیو سیٹ تو ہو لیکن ریڈیو اسٹیشن سے جس فریکونسی پر پیغام نشر ہو رہا ہے ، آپ کا ریڈیو سیٹ اس کا فریکونسی پر کام نہ کرتا ہو تو آپ کے لیے وہ بیکار ہے ۔ جب تک آپ اپنے ریڈیو سیٹ کو مطلوبہ فریکونسی پر نہیں لائیں گے ، آپ ریڈیو اسٹیشن کی نشریات سے استفادہ نہیں کر سکتے ۔ اسی طرح یہ ضروری ہے کہ علما کرام کے پاس جو علم دین کا پاور ہاؤس ہے اور ایک عام آدمی جو دین کی رہنمائی چاہتا ہے اور جس کو آپ رہنمائی دینا چاہتے ہیں ، ان دونوں کی فریکونسی ایک ہو ۔ اس فریکونسی کو موافق بنانے کے لیے ایک تو تخصص ضروری ہے جس پر میں ابھی مزید بات کروں گا اور دوسرا دور جدید کا محاورہ درکار ہے ۔ یہ غلط مبحث اور غلط فہمی ہے کہ علما کو انجینئر یا ڈاکٹر بنانا مقصود ہے ۔ نہیں ، بلکہ مقصود یہ ہے کہ وہ علوم و فنون جنہوں نے آج کل کی تہذیب کی تشکیل کر رکھی ہے اور جن کی بنیاد پر آج ساری دنیا کا نظام چل رہا ہے ، حتی کہ پاکستان ، سعودی عرب اور ایران بھی چل رہا ہے ، ان سے علما بھی مناسب طور پر واقف اور مانوس ہوں ۔ مسلمانوں نے اپنے دور میں علوم و فنون کی ایک الگ تقسیم کی تھی۔ کچھ علوم مقاصد یا علوم حقیقی اور کچھ علوم وسائل یا علوم آلیہ ہیں ۔ اسی طرح کچھ علوم ہیں ، کچھ صنائع ہیں اور کچھ فنون ہیں ۔ یہ مسلمانوں کی تقسیم تھی ۔ آج عملًا یہ تقسیم موجود نہیں ہے ۔ آج تعلیم کا نظام عملاً اس تقسیم پر نہیں چل رہا آج دنیا میں ایک نئے انداز سے علوم کی مختلف تقسیمیں کی جاتی ہیں ۔ ان میں ایک اہم تقسیم علوم عمرانی Social Sciences اور علوم انسانی Humanities کی ہے ۔ سوشل سائنسز میں وہ ان علوم و فنون کو شامل کرتے ہیں جو انسانی معاشرے کی تشکیل اور معاشرتی زندگی سے بحث کرتے ہیں ۔ ان میں تاریخ ، سیاسیات ، معاشیات ، عمرانیات اور کسی حد تک قانون شامل ہیں ۔ یہ عمرانی علوم ہیں جن سے اجتماعی رویوں کی تشکیل ہو رہی ہے ۔ Humanities وہ علوم ہیں جو انسان کے مطالعے پر مبنی ہیں ، یعنی فرد کے خیالات ، فرد کے افکار ، فرد کی نفسیات ، فرد کے احساسات و جذبات ، یہ سب کے سب Humanities کہلاتے ہیں ۔ اس میں فلسفہ نفسیات اور بشریات شامل ہیں ۔ یہ دو میدان وہ ہیں جن سے دور جدید میں تہذیب کی تشکیل ہوئی ہے۔ آج ہمارا ایک پڑھا لکھا انسان ، چاہے وہ پاکستان کا ہو یا سعودی عرب کا یا مصر کا یا کسی بھی اسلامی ملک کا ، جب وہ بات کرتا ہے تو اسلامی علوم اور تصورات کے تناظر perspective میں بات نہیں کرتا ۔ وہ اسلامی اصطلاحات یا فقہی سیاق و سباق یا فقہی محاورے میں با ت نہیں کرتا ، بلکہ وہ مغربی سوشل سائنسز کے محاورے میں بات کرتا ہے ۔ عمرانی علوم اور انسانی علوم کے علاوہ مختلف قسم کے طبیعی علوم بھی ہیں جن کی حیثیت Tools اور آلات کی ہے جن سے لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانا مقصود ہے ۔ ان کا دینی علوم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں بنتا ۔ بالواسطہ جس چیز کی ضرورت پیش آتی ہے ، وہ یہ ہے کہ علما کرام بقدر ضرورت سوشل سائنسز اور ہیومینیٹز سے واقفیت رکھتے ہوں ۔ اسی طرح کی واقفیت رکھتے ہوں جیسے آج سے ایک ہزار سال پہلے منطق سے واقفیت کی ضرورت پیش آئی تھی ۔

            اگر آپ اس دور یعنی تیسری صدی کے مباحث پڑھیں تو معلوم ہو گا کہ جب یونانی منطق اور فلسفہ کی کتابیں ترجمہ ہونا شروع ہوئی تو مسلمانوں میں اسی طرح کے تین رویے تھے جو آج مغربی تہذیب کے بارے میں ہیں ۔ علما کرام ، محدثین اور مفسرین کا ایک بہت بڑا طبقہ و ہ تھا جو ان سب چیزوں کو ناپاک اور گردن زنی سمجھتا ، جو یونانی منطق اور فلسفہ سے اعتنا رکھنے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج یا اس کی حدود پر سمجھتا تھا ، ان کو مسلمانوں کا نمائندہ نہیں سمجھتا تھا ۔ بہ بحثیں موجود تھیں کہ منطق کی کتابوں سے استنجا جائز ہے یا نہیں ۔ یہ جزئیات آپ کو فقہ کی کتابوں میں مل جائیں گی ، یعنی یہاں تک ناپسندیدگی اور نفرت کی کیفیت تھی ۔ اس کے بعد یہ رویہ محدود ہوتا گیا ، جیسا وہ ٹماٹر والا رویہ محدود ہو گیا ۔ پھر یہ کیفیت آئی کہ خالص اسلامی علوم میں منطق و فلسفہ آگیا ۔ شاہ ولی اللہ صاحب کی حجۃ اللہ البالغہ علم اسرار حدیث پر بہترین کتاب ہے ۔ میری دانست اور رائے میں اس سے بہتر اسلامی علوم کی نمائندہ کتاب برصغیر میں نہیں لکھی گئی اور میں شاہ صاحب کو برصغیر میں مسلمانوں کا امیر المومنین فی الحدیث سمجھتا ہوں ۔ لیکن جب تک آپ منطق اور فلسفہ کی اصطلاحات سے واقف نہ ہوں ، انہیں یونانیوں کی منطق جو بت پرست اور مشرک تھے ، بدکار تھے ، اخلاقی اعتبار سے بھی کچھ اونچے لوگ نہ تھے، تو ان کی کتابوں کو سمجھے اور ان کے افکار کو جانے بغیر آپ علم اسرار حدیث پر اسلامی لٹریچر کی بہترین کتاب نہیں سمجھ سکتے ۔ شاہ ولی اللہ تو بعد کے ہیں ۔ امام غزالی جیسے حجتہ الاسلام کی کتاب المستصفی جو اصول فقہ جیسے خالص اسلامی علم پر ہے ، اگر آپ منطق میں اچھی بصیرت نہیں رکھتے تو اس کو نہیں سمجھ سکتے اور اس میں منطق اتنی گھسی ہوئی ہے کہ اگر المستصفی کو سمجھ کر پڑھ لیں تو منطق بھی آپ کو آجائے گی ۔ انہوں نے منطق کو اس کتاب میں اتنا سمودیا ہے ۔ امام شاطبی کی کتاب الموافقات آپ نے پڑھی ہو گی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ اصول فقہ پر انسانی تاریخ کی بہترین کتاب ہے ۔ انسانی تاریخ میں اصول قانون پر اس سے بہتر کتاب موجود نہیں ہے ۔ لیکن جب تک آپ منطق و فلسفہ نہ جانتے ہوں ، اس کتاب کے مضامین بھی نہیں سمجھ سکتے حالانکہ وہ ایسے علاقے ، شمالی افریقہ اور اسپین وغیرہ میں لکھی گئی جہاں منطق و فلسفہ کا رواج کم تھا ، لیکن اس کے باوجود ساری کتاب کی اٹھان ، اس کا استدلال ، اس کی ترتیب ، اس کا اسلوب اس دور کی عقلیات کے معیارات کے مطابق خالص عقلی ہے ۔

            یہ ایک ایسے علاقے کی نمائندہ تہذیب کے بارے میں مسلمانوں کا رویہ تھا جس سے مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہ تھا ، نہ سیاسی طور پر ان کی مسلمانوں سے کوئی کشمکش تھی، نہ عسکری طور پروہ مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچا سکتے تھے ، نہ وہ اس پوزیشن میں تھے کہ اگر مسلمان ان کے نقطہ نظر کا مطالعہ نہ کریں تو وہ اسے زبردستی مسلط کر دیں ۔ یہ تو مسلمانوں نے خود ہی ان کے علوم و فنون کا ترجمہ کرنا شروع کر دیا تھا ۔ اب اگر یونانیوں کے علوم و فنون جو نہ مسلمانوں پر حاکم تھے ، نہ بالادست تھے ، نہ ان کے پاس اقتدار تھا ، نہ وہ مسلمانوں کے لیے خطرہ تھے ، مسلمانوں نے محض علمی دلچسپی کی خاطر انہیں اختیار کیا اور ان سے استفادہ کیا تو وہ علوم و فنون جو ایک بالا دست طاقت نے آپ پر مسلط کر دیے ہیں اور جن کے تصورا ت اور اسلوب استدلال کے مضر اثرات سے مسلمانوں میں داخل ہو رہے ہیں ، انہیں سیکھنا اور ان سے واقفیت پیدا کرنا کیونکر مسلمانوں کی ذمہ داری نہیں ہے ؟ آج اس کی ضرورت اس سے کئی ہزار گنا بلکہ کئی لاکھ گنا زیادہ ہے جتنی ضرورت یونانی علوم و فنون کے مطالعے کی تھی۔

            یہ ٹھیک ہے کہ یونانی منطق اور فلسفہ سے اشتغال رکھنے والے بہت سے لوگوں نے ایسے خیالات کا اظہار بھی کیا جو اسلام کی ترجمانی نہیں کرتے تھے ۔ آپ فارابی کی کوئی کتاب پڑھیں، مثلا اس کی کتاب آراء المدینۃ الفاضلۃ جس کو آپ کہہ سکتے ہیں کہ مسلم سیاسی فکر کی پہلی کتاب ہے ، اس میں بہت چیزیں ایسی ہیں جو اسلامی تعلیم و عقائد سے ہم آہنگ نہیں ہیں ، لیکن ایک اعتبار سے وہ ایک بڑی غیر معمولی کتاب ہے کہ اس نے یونانی علوم و فنون پڑھے اور ارسطو کی politica یعنی سیاسیات کا ترجمہ اس نے پڑھا ،شاید افلاطون کی Republic کا بھی ترجمہ دیکھا ہو ، لیکن بظاہر اس کے شواہد کم ہیں سیاسیات پر وہ ارسطو کے نقطہ نظر سے متاثر ہوا ۔ اس کے بعد اس نے ایک کتاب لکھی اور کوشش کی کہ ان خیالات کو اسلام سے ہم آہنگ کرکے بیان کرے۔ میرے خیال میں یہ islamization of knowledge کی پہلی کوشش تھی ۔ یہ داعیہ اس کے دل میں کیوں پیدا ہوا کہ وہ یونانیوں کے خیالات کو اسلام کے مطابق بنائے ؟ اس کے دل میں کوئی اسلامی حمیت اور کوئی اسلامی جذبہ تھاتو پیدا ہوا ۔ اس اسلامی جذبے نے اس کو ارسطو کے خیالات کو جوں کا توں مسلمانوں میں پیش کرنے سے باز رکھا اور جس حد تک اس کا اسلامی فہم قابل ستائش ہے اس کے مطابق اس نے ایک ایسی چیز کی بنیاد رکھی جو آگے چل کر لوگوں کی رہنما بنی ۔ اس نے اسلام کی سیاسی فکر اور اس کے دستوری تصورات کو اس طرح مرتب کیا کہ وہ نقل کے معیار کے ساتھ ساتھ عقل کے معیار پر بھی پورا اتر ے ۔ اسی وجہ سے میں ابن سینا اور فارابی کا بڑا احترام کرتا ہوں اور میرے دل میں ان کی بڑی قدر ہے ، اس کے باوجود کہ ان کے بہت سے خیالات اسلامی عقائد سے متعارض ہیں ۔

            آج بھی اسی بات کی ضرورت ہے کہ وہ حضرات جو یہ صلاحیت رکھتے ہوں یاارادہ اور خواہش رکھتے ہوں کہ آگے چل کر امت مسلمہ کی فکری قیادت کی ذمہ داری انجام دیں ، ان کو بقدر ضرورت مغربی علوم کی ناقدانہ اور قائدانہ واقفیت ہونی چاہیے ۔ ان کے لیے یہ ضروری نہیں کہ مثلاً وہ اصول قانون کے اس طرح عالم ہوں جس طرح کوئی ماہر مغرب میں پایا جاتا ہے ۔ اگر ہونا چاہتا ہے تو ضرور ہو جائے لیکن اتنی مہارت کی ضرورت نہیں ۔ اصول قانون جیسا کہ مغرب میں ہے ، اس کے بنیادی تصورات ، اس کے بنیادی عقائد ، اس کے بنیادی Concerns and issues جس سے وہ بحث کرتا ہے ، وہ کیا ہیں ، کیوں پیدا ہوئے ہیں اور ان کے جو Basic issues ہیں ، وہ گرفت میں آجائیں۔ اس کے بعد ان پر ایک تنقیدی نظر ڈال کر ایک صاحب علم فقیہ یہ دیکھے کہ اس میں کیا چیز ہے جو کمزور ہے ، کیا چیز ہے جو مضبوط عقلی بنیادوں پر قائم ہے اور کیا چیز یا کیا اسلوب استدلال ہے جس سے کام لیکر اصول فقہ کے اس تصور یا نظریہ کو زیادہ بہتر انداز میں بیان کیا جا سکتا ہے ۔ یہ ناقدانہ انداز ہے ۔

            آپ دیکھیں کہ اصول فقہ پرجس طرح امام سرخسی نے اصول السرخی لکھی تھی( جو فقہ حنفی میں پہلی کتاب ہے) ، اس انداز کی کتابیں بعد میں نہیں لکھی گئیں ، امام رازی اور امام غزالی کی کتابیں اس انداز کی نہیں ہیں ۔ ان میں منطق اور فلسفہ آگیا ہے جو جائز تھا ۔ امام غزالی نے اصول فقہ کے ہر مسئلہ کو منطق کے دلائل سے اس طرح ثابت کر کے دکھایا کہ یونانی فلسفہ و منطق کا کوئی بڑے سے بڑا ماہر امام غزالی کے استدلال سے اختلاف نہیں کرسکتا ۔ اس طرح انہوں نے اصول فقہ کو یونانی منطق کے ماہرین کے فہم کے قریب کیا منطق سے متاثر لوگ اصول فقہ سے متاثر ہوئے انہوں نے اصول فقہ کے بارے میں یہ تسلیم کیا کہ یہ فن عقل و نقل دونوں کی میزان پر پورا اترتا ہے ۔ یہی کام آج ہمیں کرنا پڑے گا ۔ جب تک نہیں کریں گے تو بات آگے نہیں بڑھے گی ۔

            اسی طرح آج جو طبقہ ہمارا اور آپ کا نظام چلا رہا ہے، یہ اصول فقہ سے واقف نہیں۔ یہ انگریزی اصول قانون سے واقف ہے۔ اینگلو سیکسن لا، اس کے تصورات و استدلات اور عقائد ، سب ان کے رگ و پے اور گھٹی میں پڑے ہوئے ہیں۔ اب یا تو آپ انہیں مجبور کریں کہ وہ اپنا سب کام چھوڑ کر اصول فقہ پڑھیں تو یہ عملاً ہوگا نہیں۔ اگر آپ سے کوئی کہے کہ آپ اپنی ملازمت، تدریس ، نوکری چھوڑ کر پانچ سال یا دس سال اصول قانون پڑھنے پر لگائیں تو آپ تیار نہیں ہوں گے۔آپ کے پاس وقت نہیں ہے، آپ کے وسائل اس کی اجازت نہیں دیتے۔ آپ کے مشاغل اس کے متحمل نہیں ہوں گے۔ اسی طرح ان لوگوں کے مشاغل بھی اس کے متحمل نہیں ہوتے کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر قدیم محاورے میں لکھے ہوئے اسلامی علوم و فنون میں مہارت حاصل کریں۔ ایک وکیل اپنی وکالت کیوں چھوڑے؟ اگر چھوڑ دے تو کھائے کہاں سے اور کیوں پانچ سال اصول فقہ یا فقہ پڑھنے پر لگائے؟ پانچ سال میں بھی اتنی واقفیت پیدا نہیں ہوگی جتنی ہونی چاہیے۔ اس لیے مطالبے کرنے سے ، جلوس نکالنے سے، بینر لگانے سے کوئی جج یا وکیل خود بخود فقہ کا ماہر نہیں ہوجائے گا۔ وہ تو تب بنے گا جب وہ پڑھے گا اور تب پڑھے گا جب آپ اسے پڑھانا چاہیں گے اور جب پڑھانا چاہیں گے تو اس کے لیے ذہنی پس منظر اور اس کے مزاج کے مطابق آپ کو تیاری کرنی پڑے گی۔ اس میں شارٹ کٹ کوئی نہیں ہے۔ یہ نہیں ہوگا کہ آج کوئی اسلامی تحریک یا دینی جماعت دھرنا دے دے اور کل اس کے نتیجے میں جج صاحبان اور وکلا جن کی تعداد بالترتیب پانچ ہزار اور بارہ ہزار کے قریب ہے، سب کے سب فقہا ہوجائیں۔ یہ نہیں ہوسکتا۔ پھر بھی صورت حال یہی رہے گی جو آج ہے۔ اس کے لیے بہت Long Termجانا پڑے گا۔ جب دو سو سال میں یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے تو کم از کم دو سو نہیں تو پچاس سال تو کام کرنا پڑے گا۔ پچاس سال کم از کم تبدیلی کے لیے درکار ہیں، اس وقت سے جب تبدیلی کے لیے کام شروع ہوگا۔اگر پچاس سال پہلے شروع ہوچکا ہوتا تو آج تبدیلی آچکی ہوتی۔ اس لیے اصول فقہ کو اس انداز سے مرتب کرنا پڑے گا کہ دورِ جدید کا انسان جو قانون تو جانتا اور مغربی اصول فقہ سے مانوس ہے، وہ اس تصور کو سمجھ سکے اور اس تصور کو اپنے فہم کے قریب لا سکے۔ مسلمانوں کو ان علوم میں اتنی واقفیت پیدا کرنی ہوگی کہ ان کے اسلوب استدلال کے ذریعے سے اسلامی عقائد اور اسلامی تعلیم کو پیش کر سکیں جس طرح امام غزالیؒ نے منطق سے کام لے کر اصول فقہ کے اصولوں کو پیش کیا تھا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسے لوگ موجود ہوں۔

            اس کی دو شکلیں ہیں۔ ایک شکل تو یہ ہے کہ جو لوگ اصول قانون کے ماہر ہوں، انہیں اصول فقہ کا ماہر بھی بنا دیا جائے۔ دوسری شکل یہ ہے کہ جو اصول فقہ کا ماہر ہو، اسے بقدرِ ضرورت اصول قانون کا ماہر بنا دیا جائے۔ دوسری صورت زیادہ آسان معلوم ہوتی ہے۔

            دیگر علوم و فنون کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا کہ یہ درست اور یہ غلط ہے، یہ عقیدہ ٹھیک ہے، اسلام کے مطابق ہے اور یہ عقیدہ اسلام کے خلاف ہے، اس کا اس وقت تک پتا نہیں چلے گا جب تک انسان میں رسوخ حاصل نہیں کرے گا۔ ایک کچا آدمی ان کی گمراہیوں سے متاثر ہوجائے گا جیسا کہ آج تک ہوتا رہا ہے۔ علما کرام جو متامل ہیں، شاید اسی وجہ سے ہیں کہ ایسی مثالیں سامنے آئیں کہ کچا علم رکھنے والوں نے مغربی علوم و فنون کی بنا پر اسلام کی ایسی تعبیریں کیں جو اسلام کی روایت کے مطابق نہیں تھیں اور جس میں انہوں نے اسلام کی علمی روایت کے تسلسل کو محفوظ نہیں رکھا تھا۔ اس لیے جب تک علم میں پختگی نہ ہو، اس وقت تک ناقدانہ تصور نہیں پیدا ہوسکتا۔ پختگی پیدا کرنے کے لیے بھی ابھی تک ہمارے ہاں کوئی نظام نہیں ہے۔

            آج جو دینی تعلیم ہم دے رہے ہیں، اس کے مقاصد کیا ہیں؟ وہ ہمارے سامنے ہونے چاہییں۔ میں ذرا بے تکلف بات کروں گا۔ آپ بُرا نہ مانیے گا۔

چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر

کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی!

            توگفتگومیں تھوڑی سی تلخ نوائی کا عنصر آنے کی اجازت دیجیے۔ جب دارالعلوم دیوبند قائم ہوا، اس وقت مسلمانوں کو مسئلہ یہ درپیش تھا کہ انگریز نے پورے برصغیر پر قبضہ کر لیا تھا، مسلمانوں کے اوقاف سب ختم کر دیے تھے اور ایک ایک کر کے ضبط کر لیے گئے تھے۔ تعلیمی ادارے سب بند کر دیے گئے تھے۔ علما کرام جو سارے نظام کو چلا رہے تھے، ان کو ملازمتوں سے الگ کر دیا گیا تھا۔ عدالتوں کا نظام جو شریعت کے مطابق تھا، اس کو ختم کر کے انگریزی عدالتیں قائم کر دی گئی تھیں۔ انگریزی قانون شریعت کی جگہ نافذ کر دیا گیا تھا اور فارسی جو نظام حکومت کی زبان تھی، اس کو ختم کر کے انگریزی زبان جاری کر دی گئی۔ جہاں جہاں مسلمان مقرر تھے، ان کی جگہ ہندوؤں کو مقرر کر دیا گیا ۔ بڑے مناصب پر انگریز آگئے اور مسلمان ہٹا دیے گئے۔ جو چیزیں مسلمانوں کی عزت کا ذریعہ تھیں، وہ مسلمانوں کی ذلت کا ذریعہ بنا دی گئیں۔ مسلمانوں کا لباس، مسلمانوں کے عہدے، مسلمانوں کے مناصب، مسلمانوں کے القاب، ہر چیز جو اونچے درجے کی تھی، اس کو نیچے درجے میں انہوں نے متعارف کروا دیا۔ یہ وہ حالات تھے جن میں انہوں نے یہ محسوس کیا کہ وہ نصاب یا وہ نظام جو آسانی سے اس وقت اپنایا جا سکتا ہے، اس کو اپنا لیا جائے۔

            اس وقت درسِ نظامی برصغیر میں رائج تھا۔ درسِ نظامی نہ کوئی آسمانی چیز ہے، نہ قرآن میں آیا ہے، نہ حدیث میں، نہ اس کا اسلام کے مستقبل یا ماضی سے کوئی تعلق ہے۔ یہ ایک اچھی مفید چیز ہے، اس کی افادیت سے انکار نہیں۔ اصل میں انگریز کی حکومت جب برصغیر میں قائم ہوئی تو اس وقت ہندستان میں چار پانچ قسم کے درس رائج تھے۔ ایک درس مشرقی ہندستان، جون پور وغیرہ میں رائج تھا جو شیراز ہند کہلاتا تھا۔ شیراز ہند اس لیے کہلاتا تھا کہ جون پور اور مشرقی علاقوں میں عقلیات اور فلسفے پر زور زیادہ تھا اور وہاں کے فارغ التحصیل حضرات منطق اور فلسفے کے ماہر ہوتے تھے۔ مسلمانوں میں عقلیات پر جتنی کتابیں بر صغیر میں لکھی گئیں، وہ خیر آبادی اسکول کی طر ف سے لکھی گئیں۔ فضل حق خیر آبادی اور فضل امام خیر آبادی اس اسکول کے معروف نام ہیں اور ان کی لکھی ہوئی کتابیں ھدیہ سعدیہ اور شمس بازغہ وغیرہ سے آپ واقف ہیں۔

            ایک دوسرا درس تھا جو افغانستا ن کے اثرات سے آیا تھا اور موجودہ صوبہ سرحد، افغانستان اور موجودہ پنجاب میں رائج تھا۔ اس میں صرف و نحو اور نحوی بحثوں پر زور دیا جاتاتھا۔ کافیہ اور اس کی شرح پڑھنے پر لوگ دس دس سال لگاتے تھے۔ کافیہ میں کیا لکھا ہے، اس سے بحث نہیں ہوتی تھی، لیکن مفردا مرفوع ہے یا منصوب یا مجرور، اس پر تین تین دن بحث ہوتی رہتی تھی۔ پھر کافیہ کی شرح، شرح جامی پڑھائی جاتی تھی۔ پھر شرح جامی کی شرح، پھر اس کے حواشی سوال با سولی، سوال کابلی، تحریر سنبٹ وغیرہ اور دس دس سال اس میں لگ جاتے تھے۔ بہرحال یہ تخصص کا میدان تھا۔ ان کی دلچسپی تھی جس پر ہمیں اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں۔

            تیسرا نصاب وہ تھا جو مغربی ہندستان اور سندھ میں رائج تھا جس میں علم حدیث پر نسبتاًزیادہ زور تھا۔ شیخ علی المتقی ، کنز العمال کے مصنف، عبدالوہاب المتقی، ہمارے سندھ کے علمائے کرام شیخ محمد حیات سندھی، شیخ محمد عابد سندھی اور شیخ ابوالحسن سندھی وغیرہ حضرات اس نظام سے وابستہ تھے۔ ان حضرات کا اعتنا علوم حدیث سے زیادہ تھا۔

            یہ تین مختلف نظام ہندستان میں رائج تھے اور کچھ تھوڑی تبدیلیوں کے ساتھ ان سے مختلف بھی تھے، لیکن بڑے انداز یہی تین تھے۔ اس کی تفصیل اگر آپ دیکھنا چاہیں تو مولانامناظر احسن گیلانی کی ضخیم کتاب ہندستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت میں دیکھ لیجیے۔ جب انگریز ہندستان میں آئے، ایسٹ انڈیا کمپنی آئی تو سب سے پہلے بعض سرحدی علاقوں بمبئی، مدراس اور کلکتہ وغیرہ پر قبضہ کیا۔ کلکتہ پر قبضہ کرنے کے بعد انہوں نے تجارتی کوٹھیاں بنائیں۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی پولیس اور فوج رکھنا شروع کی جس کی ایک لمبی داستان ہے۔ آج کل اس کے Parallels اور اس کی مشابہتیں بڑی نمایاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے ملک میں بدامنی ہے، آپ کے ہاں راستوں میں ڈکیتیاں بہت ہوتی ہیں، اس لیے ہم اپنی جان و مال اور راستوں کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی فوج الگ رکھیں گے۔ ان کو فوج رکھنے کی اجازت دی گئی اور انہوں نے راستوں پر سپاہی رکھنے شروع کر دیے۔ ہوتے ہوتے انہوں نے پورے بنگال پر قبضہ کر لیا اور بالآخر نواب سراج الدولہ کے خلاف فوج کشی کر کے اس کو فارغ کردیا۔ بنگال پر قبضہ کرنے کے بعد انہوں نے بہار اور اڑیسہ پر قبضہ کر لیا اور الہ آباد پہنچ گئے جو مشرقی یوپی کا سب سے بڑا شہر تھا۔ جب تین صوبوں بنگال، بہار اور اڑیسہ پر ان کا قبضہ ہوچکا تو ہندستان میں مسلمانوں کے کان پر جوں رینگی اور یہاں کا جو حکمران تھا، غالباً شاہ عالم ثانی، وہ ان کے مقابلے کے لیے اپنی فوج لے کر نکلا، اس کو ناکامی ہوئی۔ اس ناکامی کے نتیجے میں الہ آباد میں ایک معاہدہ ہوا جو معاہدہ دیوانی کہلاتا ہے۔ یہ معاہدہ حضرت شاہ ولی اللہ کے انتقال کے کوئی تین سال بعد ہوا۔ اس معاہدہ میں شاہ عالم ثانی نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو ان تینوں صوبوں کا انتظام سپرد کر دیا یعنی اس کو قانونی طور پر ایک جائز قبضہ تسلیم کر لیا اور کہا کہ میری طرف سے آپ ان تینوں صوبوں کا نظام چلائیں گے لیکن اس کی یہ شرائط ہوں گی۔(انگریز ہمیشہ شروع میں شرائط مان لیتے ہیں جو ان کو سوٹ کرتی ہیں۔ پیروی اور پابندی وہ کتنی کرتے ہیں، یہ ہم سب کے سامنے ہے۔ )

            ان شرائط میں ایک بات یہ تھی کہ مسلمانوں کے سارے معاملات شریعت حقہ محمدیہ کے مطابق ہوں گے۔ یہ معاملات قاضی اور مفتی طے کریں گے کہ شریعت کیا ہے اور اس کو کیسے نافذ کیا جائے۔ یہ ان شرائط میں ایک چیز تھی۔ جب انگریزوں نے یہ شرائط مان لیں تو انگریزوں میں یہ خوبی ضرور ہے، ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ وہ ہر کام بڑے Methodicalطریقے سے کرتے ہیں۔ ہر کام کا ایک نظام ہوتا ہے۔ پہلے قانون بنتا ہے، اس کے مطابق نظام چلتا ہے۔ تو انگریزوں نے یہ معلوم کیا کہ مسلمانوں میں کسی کو جج مقرر کرنے کے لیے اس کا فیصلہ کیسے کیا جائے کہ وہ عالم فقیہہ ہے؟ انہوں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ تین چار قسم کے نصاب رائج ہیں اورہر ایک فارغ التحصیل کو عالم کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی ایسا نصاب ہونا چاہیے جو ان تینوں خصائص کا جامع ہو۔ اب ان تینوں خصائص کا جامع نظام وہ تھا جو فرنگی محل میں رائج تھا۔فرنگی محل ایک بہت بڑے مکان کا نام تھا جو جہانگیر نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو دے دیا تھا۔ جہانگیر اس زمانے میں بیمار ہوا، کئی لوگوں نے اس کا علاج کیا لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ ایک انگریز ڈاکٹر نے علاج کر دیا تو اس نے خوش ہو کر پوچھا کہ کیا چاہیے؟ انگریز ہمیشہ اپنی قوم کا وفا دار ہوتا ہے۔ اس نے کہا کہ میری قوم کے کچھ لوگ یہاں لکھنؤ میں تجارت کے لیے آئے ہیں، ان کو مشکل پیش آتی ہے تو آپ ان کو تجارت کی اجازت دے دیں اور ان کو کوئی charterیا کوئی Guaranteesایشو کردیں۔ جہانگیر نے فرمان جاری کردیا اور لکھنؤمیں ایک بہت بڑا محل یا کوٹھی ان کو دے دی۔ انگریزوں کی وجہ سے وہ کوٹھی، فرنگی محل، کہلاتی تھی۔ اورنگ زیب کے زمانے میں کسی حوالے سے اس کو خبر ملی کہ انگریزوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے جو جہانگیر نے طے کیا تھااور بعض ایسے کام کیے ہیں جو حکومت کی پالیسیوں کے خلاف تھے۔ اورنگ زیب نے وہ کوٹھی ان سے ضبط کر لی اور ان کو نکال کر وہ کوٹھی ملا نظام الدین سہالوی کو دے دی جنہوں نے فتاویٰ عالم گیری مرتب کرایا تھا اور کہا کہ آپ یہاں درسگاہ قائم کریں۔ چنانچہ اس درسگاہ کے علما فرنگی محلی کہلانے لگے۔مولانا جمال فرنگی محلی، عبدالوہاب فرنگی محلی، عبدالباری فرنگی محلی، یہ نام آپ نے سنے ہوں گے۔ فرنگی محل میں ملا نظام الدین سہالوی کا مرتب کردہ جو نصابِ تعلیم تھا، اس میں انہوں نے منطق ، فلسفہ، نحو اور حدیث کے ساتھ ساتھ اصول فقہ اور فقہ کی بنیادی کتابیں بھی شامل کردیں، اس لیے کہ وہ خود فقہ کے متخصص تھے، مفتی اور محتسب رہے تھے اور فتاویٰ عالم گیری کی ترتیب میں بھی شریک رہے تھے۔

            جب انگریزوں کو پتا چلا کہ فرنگی محل کا جو نصاب تعلیم ہے، اس میں فقہ کی اچھی بنیاد موجود ہے اور وہاں کے فارغ التحصیل حضرات فقہ کے ماہر ہوتے ہیں تو انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اسی درسِ نظامی کے فارغ التحصیل حضرات کو قاضی و مفتی مقرر کیا جائے گا۔ چنانچہ بڑے پیمانے پر قاضی و مفتی مقرر ہونے لگے اور درسِ نظامی کے فارغ التحصیل حضرات کو اچھا دنیاوی موقع ملا، ان کی تنخواہیں اچھی تھیں، ان کے وسائل اچھے تھے، معیارات اچھے تھے تو بڑے پیمانے پر مدارس نے اسی نصاب کو اپنانا شروع کر دیا اور بڑی تعداد میں انگریزوں نے اس نصاب کے فارغ التحصیل علمائے کرام کو مفتی ومحتسب مقرر کر دیا۔ آپ ۱۸۵۷ء سے پہلے کی تاریخ میں بیسیوں علمائے کرام کے نام سنیں گے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم کے طور پر کام کرتے تھے۔ مفتی صدر الدین آزردہ کا نام آپ نے سنا ہوگا۔ وہ اسی درسِ نظامی کے پڑھے ہوئے تھے اور انگریزوں کے نظام میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم کی حیثیت سے کام کرتے تھے۔ ‘صدر الصدور’ تھے یعنی دہلی اور اس کے قرب و جوار کے مذہبی امور کے جتنے قاضی تھے، ان کی سربراہی ان کے پاس تھی۔ آپ انہیں اس علاقے کا چیف جسٹس کہہ سکتے ہیں۔ اس طرح کی اور بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔

            یہ نصاب تھا جس سے لوگ مانوس تھے اور گزشتہ کم و بیش سو برس یا ۸۰ برس سے لوگ اس نصاب کو پڑھتے چلے آرہے تھے۔ جب مولانا قاسم نانوتویؒ نے دارالعلوم کے قیام کا فیصلہ کیا تو انہوں نے بھی اسی نصاب کو اپنا لیا اور لوگوں کے ساتھ وہ بھی اس نصاب کے پڑھے ہوئے تھے۔ ان کے والد، ان کے ساتھی دوسرے علمائے کرام، مثلاً مولانا محمد یعقوب نانوتوی جو دارالعلوم کے پہلے صدر مدرس بھی منتخب ہوئے، ان کے والد مولانا مملوک علی، سب اسی نظام کے پڑھے ہوئے تھے اور وہ دہلی کالج میں، جسے ایسٹ انڈیا کمپنی چلاتی تھی، عربی کے پروفیسر تھے۔ اس نصاب کو اپنانے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ دینی تعلیم بقدرِ ضرورت اس میں شامل تھی۔ اس میں عربی زبان بھی تھی، فقہ بھی تھی، اصول فقہ بھی تھی، حدیث بھی تھی، تفسیر کی ایک دو کتابیں بھی انہوں نے شامل کر دیں۔ اس سے پہلے تک حدیث کی صرف ایک کتاب مشکوٰۃ اور ایک آدھ کتاب ہوتی تھی۔ ان حضرات نے مزید کتابیں شامل کردیں اور ایک نیا نصاب انہوں نے بنا دیا جس نے ہندستان کے دینی تقاضوں کو اس وقت پورا کیا۔

            کیا پاکستان بننے کے بعد بھی دینی مدارس کے تقاضے یہی تھے؟ میرے خیال میں یہ نہیں تھے۔ پاکستان بننے کے بعد دینی مدارس سے تین قسم کے تقاضے ہیں اور تینوں تقاضوں کی ضروریات الگ الگ ہیں۔ ایک تقاضا تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو مساجد ہیں، ان میں ہمیں تربیت یافتہ امام درکار ہیں۔یہ مسلمانوں کی دینی زندگی کا سب سے لازمی مطالبہ ہے جسے پورا ہونا چاہیے۔ میرا خیال ہے کہ ایک امام مسجد کو درسِ نظامی پڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اگر وہ ھدیہ سعدیہ، سوال کابلی، سوال باسولی اور تحریر سنبٹ وغیرہ نہیں پڑھے گا تو بھی وہ ایک اچھا امام ہوسکتا ہے اور اگر پڑھ لے گا تو اس کے اچھا امام بننے میں ان کتابوں سے کوئی مدد نہیں ملے گی۔ اچھا امام بننے یا نہ بننے میں ان علوم و فنون کا سرے سے کوئی دخل نہیں ہے۔ اس لیے یہ تحصیل بے فائدہ اور وقت کا ضیاع ہے ۔ آپ نے ہزاروں ایسے لوگوں کو دیکھا ہوگا اور آگے چل کر کروڑوں ایسے لوگوں کو دیکھیں گے جنہوں نے آٹھ دس سال لگا کر یہ ساری چیزیں یاد کیں، پھر پچاس سال امامت کی اور پچاس سالہ امامت میں کسی نے ان سے ھدایۃ الحکمۃ کا کوئی ایک سوال بھی نہیں پوچھا۔جو سوال لوگوں کے ہیں وہ تو ان کو پڑھائے نہیں جاتے۔لوگ پوچھتے ہیں کہ شیئرز مارکیٹ میں پیسہ لگانا جائز ہے یا نہیں اور ان میں اکثر کو یہی پتا نہیں ہوتا کہ شیئرز کہتے کس کو ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ نظام اچھا امام تیار نہیں کرسکتا۔اب ایک اچھے امام کی حقیقی ضروریات کیا ہیں، اس پر غور کرنا چاہیے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ایک کم از کم تعلیمی معیار کے بعد ، جو میٹرک ہوسکتا ہے، آپ دینی مدارس میں طلبہ کو داخلہ دیں۔ میٹرک کے بعد حفظ قرآن لازمی ہونا چاہیے۔ میں ذاتی طور پر اس بات کا قائل ہوں کہ دینی مدارس میں حافظ کے علاوہ کسی کو داخلہ نہیں دینا چاہیے۔ اس وقت جامعہ ازہر کے تحت جو ادارے کام کر رہے ہیں، ان میں طلبہ کی تعداد کم و بیش پندرہ لاکھ ہے جو پاکستان کے دینی مدارس کے طلبہ کی تعداد سے زیادہ ہے۔ وہاں حفظ قرآن لازمی ہے گویا پندرہ لاکھ حافظ طلبہ اس وقت جامعہ ازہر کے زیر انتظام اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ اگر وہ کرسکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کرسکتے؟

            اس کے بعد تین سال کا ایک نظام اور نصاب ایسا ہو جس میں بقدر ضرورت عربی زبان پڑھائی جائے، اتنی کہ طالب علم تفسیر اور حدیث کی کتابیں اور فقہ کی عام کتابیں پڑھ سکے۔ عربی زبان کے علاوہ حدیث اور علوم حدیث پر کوئی ایک آدھ جامع کتاب مثلاً مشکوٰۃ کا انتخاب یا معارف الحدیث اور علوم حدیث پر کوئی اور اچھی کتاب پڑھا دی جائے۔ اسی طرح اردو کی کوئی تفسیر، مثلاً تفسیرِ عثمانی اور کوئی ایک عربی کی مختصر تفسیر پڑھائی جائے۔ایک دو فقہ کی کتابیں ہوں اور کوئی ایک آدھ کتاب جدید معاشیات پر۔ اس طرح کا ایک تین سالہ نصاب ہو جس میں تقریر کی مشق بھی ہو اور تجوید بھی اس میں شامل ہو۔ جو یہ نصاب مکمل کر لے، وہ امام بننے کا اہل ہو اور اس کو پھر امام بننے کا موقع دینا چاہیے تا کہ وہ اپنا ادارے کا مزید وقت اور وسائل ضائع نہ کرے، اس لیے کہ اسے اس سطح سے آگے کام نہیں کرنا۔

            اب یہ ایک تقاضا ہے جس کے لیے آپ جب تک کوئی نظام نہیں بنائیں گے، وہی کچھ ہوتا رہے گا جو آج ہورہا ہے۔ آپ ایک اور تلخ بات سنیے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے اور جب تک آپ حقائق کا سامنا نہیں کریں گے، مستقبل کی تشکیل نہیں کرسکتے۔ آج ہمارا امام جب سوسائٹی میں جاکریہ محسوس کرتا ہے کہ میں نے جو کچھ پڑھا ہے، وہ تو غیر متعلقہ ہے اور یہاں لوگ جو سوال کرتے ہیں، اس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے تو وہ اپنی پڑھی ہوئی چیزوں کو مربوط بنانے کے لیے وہاں وہ مسائل پیدا کرتا ہے جو اس کے اپنے مسائل ہیں تا کہ وہ لوگوں کے بھی مسائل بن جائیں اور جب وہ ان کے مسائل بن جائیں گے اور وہ پوچھیں گے تو میں ان کا جواب دوں گا۔ وہ مسائل کیا ہوتے ہیں؟ وہ فرقہ وارانہ ہوتے ہیں۔ اب جن بیچاروں کو کچھ پتا نہیں اور نہ کبھی ان کے ذہن میں یہ خیال آیا ہوتا کہ حضورؐ نور تھے یا بشر تھے، ان کے لیے امام یہ مسئلہ پیدا کردیتا ہے۔ رسول اللہؐ کا حکم واجب التعمیل ہے، یہ کوئی نہیں بتاتا لیکن اس پر زور دینا شروع کرتا ہے کہ آپ بشر تھے اور دوسرا اس پر کہ آپؐ نور تھے۔ وہ نور کا ایک محدود مفہوم بیان کرتا ہے، اور جب علم کی کمی کی وجہ سے لوگوں کا ایک گروہ اس کام کے لیے تیار ہوجائے گا تو اب امام صاحب کی نوکری پکی ہوجائے گی اور انہیں کوئی وہاں سے نہیں ہٹائے گا۔ یہ ایک افسوسناک بات ہے جس پر غور کرنا چاہیے۔اس کو محض تنقید کے مفہوم میں نہ لیں۔ جب تک مرض کی آپ تشخیص نہیں کریں گے، اس وقت تک اس کا علاج نہیں کرسکیں گے۔ اس لیے امام کو اس کام کے لیے تیار کریں جو سوسائٹی سے متعلقہ مسائل ہیں۔ جب اسے یہ مسائل آتے ہوں گے تو وہ غیر متعلق مسائل پیدا نہیں کرے گا۔

            اس کے بعد تعلیم کا دوسرا درجہ ان لوگوں کے لیے ہے جو دینی علوم کے مدرس یا معلم بننا چاہتے ہیں۔ آپ پاکستان کے ہر اسکول اور کالج میں ایف اے تک اسلامیات لازمی ہے۔ بہت سے لوگ بی اے میں بھی پڑھتے ہیں۔ ہر کالج اور ہر اسکول میں اسلامیات ٹیچر ہوتے ہیں۔ یہ دوطرح کے لوگ ہیں۔ کچھ تو وہ ہیں جو سرکاری اداروں سے ایم اے کر کے آتے ہیں جن کا علم بڑا نا پختہ ہوتا ہے۔ وہ اردو میں پڑھ کر امتحان پاس کرلیتے ہیں اور ان میں سے بہت لوگ قرآن پاک بھی ناظرہ نہیں پڑھ سکتے۔ میں نے اسلامیات کے ایسے اساتذہ دیکھے ہیں کہ جن سے نماز پڑھانے کے لیے کہا جائے تو نماز نہیں پڑھا سکتے۔ قرآن پاک کی شاید چار سورتیں بھی ان کو حفظ نہ ہوں، اس لیے کہ انہوں نے پڑھا ہی نہیں ہوتا۔ اردو میں پڑھ کر پاس کر لیتے ہیں اور اسلامیات کی ڈگری ان کو مل جاتی ہے اور وہ اسلام کے مجتہد اور مفتی بھی بن جاتے ہیں۔ یہ ایک دوسری خطرناک بات ہے جو ہورہی ہے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو مدرسوں کی لائن سے آتے ہیں۔ مدرسوں میں میبذی، شرح عقائد اور خیالی قسم کی جو اسلامیات پڑھائی جاتی ہے، وہ یہاں کام نہیں کرتی۔ یہاں جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے لیے ہم نے ان لوگوں کو تیار نہیں کیا۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے ابتدائی تین چار سال کے بعد مزید تین سال کا ایک نصاب ہونا چاہیے جس کا مقصد یہی ہو کہ آپ کو اسکولوں اور کالجوں کے لیے اسلامیات کے معلم تیار کرنے ہیں۔

            اس کے بعد تیسری ضرورت یہ ہے کہ ہمیں ایسے لوگ درکار ہیں جو خود ان دینی مدارس میں اعلیٰ درجے کے ماہرین ہوں، جو کتابیں پڑھا سکیں اور اعلیٰ درجے کے علوم و فنون کی تدریس کر سکیں۔ ہمیں فقہا درکار ہیں، محدثین درکار ہیں، مفسرین درکار ہیں، مفتی درکار ہیں جو ان سب علوم کے ماہر ہوں۔ اس کے لیے الگ سے چار پانچ سال کی تیاری چاہیے۔ جب تک وہ تیاری نہیں ہوگی، مطلوبہ افراد تیار نہیں ہوں گے۔ اس وقت درسِ نظامی میں کیا ہوتا ہے؟

             درسِ نظامی میں سب سے زیادہ نظر انداز کی گئی چیز قرآن پاک ہے جس پر سب سے کم توجہ دی جاتی ہے۔ اب بعض مدارس میں ترجمہ قرآن شروع ہوگیا ہے۔ اول سے آخر تک ترجمہ پڑھا دیتے ہیں جس کی نوعیت اس عام درس سے مختلف نہیں ہوتی جو عام مسجدوں میں ہوتا ہے جس میں بیٹھ کر لوگ سن لیتے ہیں۔ ایک عالم نے درس دے دیا، لوگوں نے عقیدت سے سن لیا۔ کچھ یاد رہا، کچھ یاد نہیں رہا۔ اسی طرح مدرسوں میں جو درس ہوتا ہے، وہ اکثر لوگوں کو یاد نہیں رہتا۔ جو تفسیر پڑھاتے ہیں، وہ بیضاوی کی سورہ بقرہ ہے۔ میرے خیال میں بیضاوی کوئی اچھی تفسیر نہیں ہے۔ میں امام بیضاوی کے پورے احترام کے ساتھ یہ بات کہتا ہوں۔ نہ وہ تفسیر کا اچھا نمونہ ہے، نہ کسی اور چیز کا۔ تفسیر بیضاوی انہوں نے کیوں لکھی؟ وہ اصل میں متکلم تھے اور اصول فقہ کے آدمی تھے۔ انہوں نے بطور متکلم یہ دیکھا کہ زمخشری کی تفسیر بڑی مقبول ہورہی ہے اور اس کے ہاں معتزلی عقائد ہیں تو انہوں نے کہا کہ زمخشری کی تفسیر سے اس کے جو بلاغت کے نکتے ہیں، وہ لے لیے جائیں اور معتزلی عقائدکو نکال کر اشعری عقائد اس میں ڈال دیے جائیں اور اس طرح سے تفسیر بیان کر دی جائے۔ اب جن جن باتوں میں انہوں نے زمخشری کی تردید کی ضرورت سمجھی، وہ ساری سورۂ بقرہ میں آگئیں، اس لیے وہ تو بڑی لمبی ہوگئی اور باقی تفسیر میں بس مختصر حواشی ہیں جنہیں کوئی پڑھتا نہیں۔

            چنانچہ عملاً تفسیر قرآن تو طلبہ کو پڑھائی نہیں جاتی۔ میں نے جید علما میں سے بھی بہت سوں کو دیکھا کہ وہ علم تفسیر سے واقف ہیں، نہ علوم قرآن میں جو مسلمانوں کے کارنامے ہیں، ان سے آشنا ہیں۔ اکثر لوگوں کوبڑی تفسیروں کے نام بھی پتا نہیں ہوتے۔ آپ چاہیں تو بیضاوی کے کسی استاد سے پوچھ لیں کہ دس بہترین تفسیروں کے نام بتا دیں تو شاید طبری اور ایک آدھ کے علاوہ چھٹا ساتواں نام نہ بتا سکے۔ اکثر صورتوں میں واقفیت کا یہ عالم ہوتا ہے۔ بعض صورتیں مستثنیٰ ہیں۔

            اب قرآن پاک ہمارے علوم و فنون کی اساس ہے تو پھر اس کو فی الواقع تعلیم کی بھی اساس ہونا چاہیے۔ یہ بات کہ آپ نے پہلے طالب علم کو ساری چیزیں پڑھا کر اس کے ذہن کا ایک سانچہ بنایا، اس کے بعد اس سانچے کے مطابق آپ اسے قرآن پڑھا رہے ہیں، یہ میرے خیال میں قرآن کی توہین ہے۔ قرآن اصل سانچہ ہے۔قرآن کے سانچے سے باقی علوم کو جانچنا چاہیے۔ ہم پہلے متاخرین کے عقائداور فتاویٰ پڑھا کر طالب علم کاایک ذہن بناتے ہیں، پھر اس ذہن سے کہتے ہیں کہ قرآن پاک کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر اس کے مطابق ایڈجسٹ کرو۔ یہ میرے خیال میں قرآن کا صحیح استعمال نہیں ہے۔ اس لیے میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ علومِ قرآن کی تعلیم کا ایک نظام ہوناچاہیے۔ کیا ہونا چاہیے؟ یہ بات طے ہے کہ علومِ قرآن میں تخصص موجود درسِ نظامی سے حاصل نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ اپنی ذاتی دلچسپی یا ذوق سے پیدا کر لیں تو کر لیں، نظام میں اس کا بندوبست نہیں ہے۔ کوئی Inherent Mechanism نظام میں نہیں ہے کہ قرآن کے متخصصین پیدا ہوں۔

            یہی حال علمِ حدیث کا ہے۔ علم حدیث کا متخصص ازخود کوئی پیدا ہوجائے، اللہ تعالیٰ انور شاہ کشمیریؒ کی طر ح کسی آدمی کو پیدا کردے تو کر دے، لیکن اس نصاب کو پڑھ کر جو لوگ تیار ہوتے ہیں، ان میں کوئی علم حدیث کا ماہر نہیں ہوتا۔ ان کو محض چند فقہی موضوعات سے متعلق وہ حدیثیں یاد ہوتی ہیں جن میں فقہائے احناف کا کوئی کلام یا فقہائے شوافع کا کوئی مستدل ہے۔ مدارس میں تین تین ماہ تک اس پر بحث ہوتی رہتی ہے کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے یا نہیں ہوتی۔ یہاں لوگوں کے ایمان ضائع ہورہے ہیں۔ لوگ ایمان ہی کو نہیں مان رہے کہ ایمان بھی کوئی چیز ہے اور اس کو چھوڑ کر آپ تین مہینے اس پر بحث کرتے رہتے ہیں کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی یانہیں ہوتی۔رسول اللہؐ کے ارشاد سے کسی کو بحث نہیں۔ آپؐ نے ایمان کے بارے میں کیا فرمایا، وہ کسی کا Concernنہیں۔ لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ اپنے کسی مقتدا یا پیشوا کے نقطہ نظر کو رسول اللہؐ کی حدیث سے ثابت کردیں۔ اس کے بعد اگلے چھ مہینے ان احادیث پر صرف ہوجاتے ہیں جن میں فاتحہ خلف الامام اور رفع یدین کی طرح اختلافی موضوعات بیان ہوئے ہیں۔ اس کے بعد جو طالب علم سب سے تیز پڑھنے والا ہوتا ہے، اس کو کہتے ہیں کہ تم پڑھو اور روزانہ چالیس صفحے پڑھو۔ نہ استاد کو اس سے کوئی بحث ہوتی ہے اور نہ شاگردوں کو ہی کچھ پتا چلتا ہے کہ رسول اللہؐ کا ارشادِ گرامی جو ساری شریعتوں کا ناسخ اور ہر چیز کا معیار ہے اور جس کے بعد ہر بات کالعدم ہے، اس میں کیا بات کہی گئی ہے۔ کتب حدیث کی شروح کو دیکھ لیجیے۔ جو شروع کی بحثیں ہیں، ان میں ایک باب تین جلدوں میں آیا ہے تو دوسرا باب چار جلدوں میں جبکہ آخری تین تین چار چار سطروں کے حاشیے ہیں کہ کذا قال فلان یا انظر فلانا۔ یہ شرحوں کی کیفیت ہے تو حدیث میں بھی کوئی تخصص مدارس میں پیدا نہیں ہوتا۔ فقہ میں تخصص کی صورتِ حال بھی یہی ہے۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ان دو مرحلوں کے لیے متخصصین کے لیے ایک نیا نصاب ہو جس میں درسِ نظامی کی ساری کتابیں شامل ہوں۔ درسِ نطامی کی کسی کتاب کو متخصصین کے لیے غیر ضروری نہیں سمجھتا، لیکن اس کے ساتھ مزید بہت کچھ شامل کرنا ضروری ہے تا کہ واقعی ایسے متخصصین پیدا ہوں جو اس فن یا علم کو آگے چل کر پڑھا سکیں۔

            یہ تین درجے تو عام ہیں جن کی ہر وقت ضرورت ہے۔ ان کے بعد ایک درجہ اور ہے جس کے لیے مزید محنت درکار ہے۔ یہ درجہ وہ ہے کہ جو مغربی علوم و فنون کی تنقیح کا فریضہ انجام دے اور ناقدانہ جائزہ لے کر یہ بتائے کہ ان میں کیا چیز کمزو رہے اور کیا چیز مضبوط ہے، کون سی بات اسلام کے مطابق ہے اور کون سی اسلام کے مطابق نہیں ہے۔ ان میں جو فقہ کا متخصص ہو، وہ مغربی قانون کا تنقیدی جائزہ لے۔ جو فقہ المعاملات کا متخصص ہو، وہ ان کی معاشیات کا جائزہ لے۔جو اصول فقہ کا متخصص ہو، وہ ان کے اصول قانون کا جائزہ لے۔ اس میں کتنا وقت لگے گا، کتنے لوگ تیار ہوں گے، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن جب تک یہ سارے کام نہیں ہوں گے، اس وقت تک امت مسلمہ کا مستقبل اس طرح بن نہیں سکتا جس طرح ہم بنانا چاہتے ہیں۔ آج صورت یہ ہے کہ نظام ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو اسلام سے واقف نہیں ہیں۔ اسلام سے ساتھ ان کی جذباتی وابستگی تو ہے اور ان میں بہت سے اچھے مسلمان بھی ہیں، لیکن جذباتی وابستگی کی بنیاد پر عمارت بنانے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے آپ ریت پر بیس منزلہ عمارت بنانا چاہیں۔ جیسے وہ قائم نہیں رہ سکتی ، اسی طرح یہ عمارت بھی لازماً گرجائے گی۔ چنانچہ جب تھوڑی سی ایسی بات آتی ہے جو اس طبقے کے خیالات سے مختلف ہو تو وہ فوراً اس پر تاویلیں کرتے ہیں، کیونکہ Intellectual Frameworkنہیں ہے، اس کا انفراسٹرکچر نہیں ہے۔ اس کے لیے وقت درکار ہے۔ وہ ایک دو دن میں نہیں ہوگا۔ کسی وعظ یا مطالبے یا بینر یا دھرنے سے کام نہیں بنے گا۔ اس کے لیے الگ کام کرنا پڑے گا۔

            یہ وہ چند باتیں تھیں جو میں اسلامی علوم و فنون کے طلبہ سے کرنا چاہتا تھا۔ چونکہ آپ اس میدان کے شہسوارہیں اور اس ضرورت کی تکمیل کی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ہے، اس لیے میری گفتگو میں تھوڑی سی تلخی آگئی جو میں نے جان بوجھ کر شامل کی تاکہ اس تلخی کا احساس آپ کو یہ سوچنے پر مجبور کرے کہ ہم جو بات کر رہے ہیں، اس کا تعلق کسی ذہنی عیاشی یا محض فکری سرگرمی سے نہیں، بلکہ وہ واقعی بڑی اہم بات اور مسلمانوں کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ میں فارسی کے ایک شعر پر بات ختم کرتا ہوں:

نواے من ازاں پر سوز و بے باک و غم انگیز است

کہ خاشا کم در شعلہ افتاد و باد صبح دم تیز است

            یعنی میں اس لیے تلخ باتیں کررہا ہوں کہ میرے آشیانے کو آگ لگ گئی اور ہوا تیز ہے اور مجھے جلدی بچانے کی ضرورت ہے۔ امر واقعہ یہی ہے کہ آشیانے کو آگ لگ چکی ہے اور بادِ صبح دم تیز ہے۔ آشیانہ جل جانے کا خطرہ ہے اور بہت جلد اس کو بچانے کی ضرورت ہے۔

بشکریہ : پیغام آشنا، جولائی تا ستمبر ۲۰۰۷