انفاق فی سبیل اللہ

مصنف : پیام دوست

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مارچ 2007

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

دنیا اور اسبابِ دنیا کی محبت کے سبب سے اللہ تعالیٰ سے جو غفلت پیدا ہوتی ہے اُس کا سب سے زیادہ مؤثر اور کارگر علاج اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنا ہے۔ یہ مال زکوٰۃ کے علاوہ ہے جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی (اللہ کا) حق ہے’’۔ (ترمذی)

انسان کو چاہیے کہ اپنی اور اپنے کنبے کے حال اور مستقبل کی ناگزیر ضروریات کے سوا ہر کام سے اپنا مال بچا کر اُس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی کوشش کرے۔ انسان کا دل اگر مال کی محبت’ بخیلی اور کنجوسی کی بیماری سے پاک ہوجائے تو اُس کے لیے تمام نیکیوں کی راہیں آسان ہوجاتی ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ‘‘تو جس نے اللہ کی راہ میں مال دیا اور (اللہ کی نافرمانی سے) پرہیز کیا اور نیک بات کو سچ جانا اُس کو ہم آسان راستے کی توفیق دیں گے اور جس نے بخل کیا اور (خدا سے) بے نیازی برتی اور نیک بات کو جھوٹ سمجھا اُس کو ہم تنگی کی راہ پر ڈالیں گے اور جب وہ دوزخ کے گڑھے میں گرے گا تو اُس کا مال اُس کے کچھ کام نہ آئے گا’’۔ (اللیل ۹۲:۵-۱۱)

انفاق کی برکات اور تقاضے

۱- توشۂ آخرت:

مال جمع کرنے کی خواہش عموماً مستقبل کے اندیشوں کو پیش نظر رکھ کر ہوتی ہے لیکن انسان مستقبل کو اسی زندگی تک محدود سمجھتا ہے’ اصل مستقبل یعنی آخرت کو نہیں دیکھتا۔ حالانکہ اُس کے مال کا اصل فائدہ صرف تبھی اُس کو حاصل ہوسکتا ہے جب وہ اس کو دنیا کے بنکوں میں جمع کرانے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے بنک میں جمع کرائے تاکہ وہ اس کی اُخروی اور نہ ختم ہونے والی زندگی میں کام آئے۔ آپؐ نے مختلف مواقع پر ارشاد فرمایا:

۱- ‘‘تم میں سے ہر ایک کے ساتھ اُس کا رب اس طرح کلام فرمائے گا کہ اُس کے اور اُس کے رب کے درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگا۔ پھر وہ اپنے دائیں بائیں دیکھے گا تو اُسے صرف اپنے وہ اعمال ہی نظرآئیں گے جو اُس نے پہلے سے آگے بھیجے ہوئے ہوں گے اور وہ اپنے آگے دیکھے گا تو اُسے اپنے چہرے کے سامنے صرف دوزخ ہی نظر آئے گی۔ پس (اے لوگو!) دوزخ سے بچو چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے (کو خیرات کرنے) کے عوض ہی کیوں نہ ہو’’۔ (بخاری)

۲- ربِ کعبہ کی قسم! وہ لوگ خسارے میں ہیں۔ وہ لوگ جو بڑے دولت مند اور سرمایہ دار ہیں لیکن اُن میں وہی لوگ خسارے سے محفوظ ہیں جو اپنے آگے پیچھے اور دائیں بائیں اپنے مال کشادہ دلی اور فراخ دستی کے ساتھ خرچ کرتے ہیں لیکن ایسے بندے بہت کم ہیں’’۔ (بخاری)

۳- ‘‘آدمی کہتا ہے میرا مال’ میرا مال حالانکہ تیرے مال میں تیرا حصہ اس کے سوا کیا ہے جو تو نے کھا کر ختم کردیا یا پہن کر پرانا کردیا یا صدقہ کرکے آگے بھیج دیا۔ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ تیرے ہاتھ سے جانے والا ہے اور تو اسے دوسروں کے لیے چھوڑ جائے گا’’۔ (مسلم)

۴- ‘‘خیرات کرنا خدا کے غضب کو بجھاتا اور بُری موت کو دُور کرتا ہے’’۔ (ترمذی)

۵- ‘‘جو مسلمان کسی مسلمان کو ننگے پن کی حالت میں کپڑا پہنائے گا اللہ تعالیٰ اس کو جنت کا سبز لباس پہنائے گا اور جو مسلمان کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کھانا کھلائے گا اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے پھل کھلائے گا اور جو مسلمان کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا اللہ تعالیٰ اس کو ایسی شرابِ جنت پلائے گا جس پر مہر لگی ہوگی’’۔ (ترمذی)

۶- ‘‘جس کسی نے پاک کمائی میں سے ایک کھجور کے برابر بھی خیرات کی’ اللہ اسے اپنے دائیں ہاتھ سے قبول فرماتا ہے اور اللہ تو پاک (چیز) ہی قبول کرتا ہے۔ پھر وہ اُس (خیرات) کو خیرات کرنے والے کے لیے پالتا رہتا ہے جیسے تم میں کوئی اپنے بچھیرے کو پالتا ہے یہاں تک کہ وہ (خیرات) پہاڑ کے برابر ہوجاتی ہے’’۔ (بخاری)

۷- ‘‘(راہِ خدا میں خوب) خرچ کیا کرو اور گن گن کر نہ دو (اور اگر ایسا کیا) تو اللہ بھی تجھے گن گن کر دے گا اور (مال) محفوظ کر کے نہ رکھو (اور اگر ایسا کیا) تو اللہ بھی تجھ پر محفوظ کررکھے گا۔ (خدا کی راہ میں) عطا کرو جتنا بھی تجھ سے ہوسکے’’۔ (بخاری)

۸- ایک مرتبہ آپؐ کے ہاں ایک بکری ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا گیا۔ آپؐ گھر تشریف لائے تو پوچھا بکری میں سے کیا باقی رہا؟ جواب ملا ایک شانے کے سوا کچھ باقی نہیں بچا۔ فرمایا: ایک شانے کے سوا ساری بکری بچ گئی۔ (ترمذی)

آپؐ کی مراد یہ تھی کہ جو کچھ راہِ خدا میں خرچ ہوا وہ درحقیقت بچ گیا ہے۔جو کچھ ہمارے پاس رہتا ہے کیا عجب کہ اس نے کبھی بھی ہمارے کام نہ آنا ہو اور ہم بے کار میں اسے سینت سینت کر رکھنے میں اپنی قوت اور وقت دونوں ضائع کرتے رہیں۔

۲- مال میں باعث ِ برکت:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:‘‘جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُن کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے اور اُس سے سات بالیں نکلیں۔ اور ہر بال میں سو دانے ہوں۔ اس طرح اللہ جس کے عمل کو چاہتا ہے بڑھاتا ہے اور وہ بڑی کشائش والا اور سب کچھ جاننے والا ہے’’۔ (البقرہ۲: ۲۶۱)

اِنفاق کرنے والے کے لیے مال سے فائدہ اٹھانے والے تمام لوگ بلکہ فرشتے بھی دعا کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

‘‘ہر روز صبح کے وقت دو فرشتے اُترتے ہیں ایک دعا کرتا ہے کہ اے اللہ! تو اپنی راہ میں مال خرچ کرنے والے کو اُس کا بدل عطا فرما۔ دوسرا فرشتہ کہتا ہے کہ تو مال روک کر رکھنے والے کا مال برباد کر’’۔ (بخاری)برکت کے معنی یہ نہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کی تجوریاں بھر جاتی ہیں اور وہ انتہائی دولت مند اور صاحب ِ جائیداد ہوجاتا ہے۔ بلکہ برکت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ اپنے مال کا حقیقی فائدہ اور نفع جس مقدار میں حاصل کرتا ہے وہ دوسرے حاصل نہیں کرپاتے۔ جو سکونِ قلب’ اللہ پر اعتماد’ قلبی مسرت اور دل و روح کی بادشاہی اِس آدمی کو حاصل ہوتی ہے دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کو کبھی خواب میں بھی وہ چیز نظر نہیں آتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

‘‘ایک آدمی میدان میں جا رہا تھا۔ اچانک اُس نے بادلوں میں سے کسی کو یہ کہتے سنا: ‘اے بادل! فلاں شخص کے باغ کو جاکر سیراب کرو’۔ اُس کے فوراً بعد بادل ایک طرف کو ہوگئے اور ایک پتھریلی زمین پر مینہ برسانے لگے۔ اس بارش کے باعث زمین کے ایک خطے پر نالہ بہہ نکلا۔ وہ شخص پانی کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ چل پڑا۔ حتیٰ کہ اُس نے ایک باغ میں ایک شخص کھڑا پایا جو بیلچے کے مدد سے پانی کا رخ تبدیل کرنے میں مصروف تھا۔ اس آدمی نے اُسے کہا: ‘اے اللہ کے بندے! تمھارا نام کیا ہے؟’ اُس نے اپنا نام بتایا۔ یہ وہی نام تھا جو اُس نے بادلوں میں سے سنا تھا۔ اُس آدمی نے کہا: ‘اے اللہ کے بندے! تم نے میرا نام کیوں پوچھا؟’ اِس (مسافر) نے جواب دیا کہ میں نے تمھارا نام اُن بادلوں سے آتی ہوئی آواز میں سنا تھا جن سے یہ مینہ برسا تھا۔ اور جن میں بادلوں کو مخاطب کر کے تمھارے باغ کو سیراب کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ مجھے بتاؤ کہ تم کون سا ایسا کام کرتے ہو جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تم پر ایسی مہربانی فرمائی؟ اُس نے جواب دیا: اِس باغ سے جو کچھ مجھے حاصل ہوتا ہے میں اِس کے تین حصے کرتا ہوں۔ ایک حصہ راہِ خدا میں خرچ کردیتا ہوں۔ ایک حصہ میں اور میرے بچے کھاتے ہیں جب کہ ایک حصہ میں باغ میں لگا دیتا ہوں’’۔ (مسلم)

۳- حصولِ حکمت کا ذریعہ:

اِنفاق دین کے دوسرے تمام عقائد و اعمال کے لیے غذا اور پانی کی طرح ہے۔ اس سے آدمی کی نیکیاں جڑ پکڑتی اور اس کے عقائد مستحکم و پائیدار ہوتے ہیں۔ اسی چیز کو قرآن مجید میں حکمت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اِس حکمت کے خزانے کی چابی درحقیقت اِنفاق ہی ہے۔ سورۃ البقرۃ میں اِنفاق کرنے والوں کے بارے میں کہا گیا ہے ‘‘اُن لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ تعالی کی رضامندی کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کر تے ہیں اس باغ جیسی ہے جواونچی زمین پر ہو اور زور دار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دوگنا لاوے اور اگر اس پر بارش نہ بھی برسے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے ۔’’۔ (البقرہ ۲:۲۶۵)اور ‘‘شیطان تمھیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کا مشورہ دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ تم سے بخشش اور رحمت کا وعدہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑا فراخ دست اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے حکمت عطا فرماتا ہے اور جسے حکمت ملی بے شک اُس کو بڑی نعمت ملی’’۔ (البقرہ۲: ۲۶۸- ۲۶۹)

۴- نصرتِ دین کے لیے:

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ‘‘(اے پیغمبرؐ! کہو) مسلمانو! کیا میں تم کو بتاؤں (ایسی) تجارت جو تمھیں (آخرت کے) دردناک عذاب سے بچائے؟ (وہ یہ ہے کہ) ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے…… اے لوگو! جو ایمان لائے ہو’ اللہ کے مددگار بنو جیساکہ عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کہ کون ہے اللہ کی طرف میرا مددگار؟ حواریوں نے جواب دیا کہ ہم ہیں اللہ کے مددگار’’۔ (الصف ۶۱:۱۰-۱۴)

چونکہ دین کو عملاً ہر وقت اپنے فروغ اور اپنی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے دین کا عملی مطالبہ یہ ہے کہ ہرمسلمان اپنی صلاحیتوں کا بڑا حصہ استطاعت کے مطابق دین ہی کے لیے استعمال کرے جنھیں اللہ نے مال سے نوازا ہے انھیں چاہیے کہ وہ اپنا مال دین کو پھیلانے میں لگائیں۔ علم پھیلانا ایسا صدقہ جاریہ ہے جس کے اجر و ثواب کا اندازہ لگانا ناممکن ہے کیونکہ انسان جب کسی ایک شخص کو مفید علم پہنچانے کا ذریعہ بنتا ہے تو وہ اندازہ نہیں لگا سکتا کہ اس ایک شخص کے ذریعے آگے کتنے اور لوگ اس نافع علم کو حاصل کر کے اس کے لیے اجر و ثواب کا باعث بنیں گے۔ قرآن باترجمہ’ اچھی دینی کتب’ کیسٹ کو پھیلانے اور اپنے ارد گرد کے ماحول میں جو بھی دینی خدمت کا موقع میسر آرہا ہو’ اسے اپنی خوش نصیبی سمجھتے ہوئے بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔

۵- موقع کو غنیمت جاننا:

خدا کی راہ میں خرچ کرنے کو آگے نہیں ٹالنا چاہیے۔ انسانی زندگی اتنی بے ثبات اور کمزور سی شے ہے کہ کیا معلوم جس دن کی صبح ہم دیکھ رہے ہیں۔ اس کی شام دیکھنا نصیب ہوگی یا نہیں۔ اس لیے جب کبھی جتنی گنجائش ہو’ تھوڑا یا زیادہ’ راہِ خدا میں دے کر اپنی آخرت کی درستی کی فکر کرتے رہنا چاہیے۔ایک صحابیہؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ‘‘اے اللہ کے رسولؐ! مسکین میرے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے اور میرے پاس کوئی چیز نہیں ہوتی جو میں اُسے دوں۔ آپؐ نے اُن سے فرمایا کہ اگر اُسے دینے کے لیے کچھ نہ پائے سوائے ایک جلے ہوئے کھر کے’ تو وہی اس کے ہاتھ پر رکھ دے’’۔ (ابوداؤد)

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ‘‘اور جو رزق ہم نے تمھیں دیا ہے اُس میں سے (راہِ خدا میں) خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور اُس وقت وہ کہے کہ اے میرے رب! کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دیتا اور صالح لوگوں میں شامل ہوجاتا؟ حالانکہ جب کسی کی مہلتِ عمل پوری ہونے کا وقت آجاتا ہے تو اللہ اُس کو ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے باخبر ہے’’۔ (المنافقون ۶۳:۱۰-۱۱)آپؐ سے پوچھا گیا: کس صدقے کا اجر و ثواب سب سے زیادہ ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا:‘‘تو صدقہ کرے اس عالم میں کہ تو صحیح و تندرست ہو’ مال کی کمی کے باعث اسے بچاکر رکھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہو اور اُسے کبھی کام میں لگاکر زیادہ کمالینے کی امید رکھتا ہو۔ اُس وقت کا انتظار نہ کر کہ جان نکلنے لگے تو تو کہے کہ یہ فلاں کو دیا جائے اور یہ فلاں کو۔ اُس وقت تو یہ مال فلاں کو جانا ہی ہے’’۔ (بخاری)آپؐ نے فرمایا: ‘‘زندگی میں انسان کا ایک درہم خیرات کرنا اِس سے بہتر ہے کہ مرتے وقت سو درہم خیرات کرے’’۔ (ابوداؤد)

۶- انفاق میں اعتدال:

راہِ خدا میں مال ایسے اعتدال سے دیا جائے کہ انسان خود محتاج نہ ہونے پائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:‘‘نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اُسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جاؤ’’۔ (بنی اسرائیل ۱۷:۲۹)

یعنی نہ کنجوسی اور نہ بہت زیادہ خرچ کرو۔ حضرت کعبؓ نے اپنا تمام مال راہِ خدا میں خیرات کرنا چاہا مگر آپؐ نے فرمایا:‘‘کچھ اپنے پاس رکھو۔ یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے’’۔ (بخاری)

انفاق کی آفات اور اُن کا علاج

اگر مندرجہ ذیل باتوں کا خیال نہ رکھا جائے تو پھر اِنفاق کی ساری برکت برباد ہوکر کوئی ایک فائدہ بھی حاصل نہیں ہوپاتا۔

۱- سر سے اُتارنے کی خواہش:

بہت سے لوگوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اللہ کی راہ میں کوئی فالتو چیز ہی دیں۔ اِس طرح کا اِنفاق نہ صرف یہ کہ کوئی خیروبرکت نہیں پیدا کرتا بلکہ وہ سرے سے اللہ تعالیٰ کے ہاں شرفِ قبولیت ہی نہیں پاتا۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ خدا یا اُس کا کوئی کام ہمارا یا ہمارے مال کا محتاج نہیں۔ یہ صرف اللہ کی طرف سے ہمارا امتحان ہے کہ ہم اُسی کا بخشا ہوا مال اُسی کو دیتے ہوئے کیا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ ربِ کریم کا کتنا بڑا احسان ہے کہ وہ مال کو خود اپنے ذمہ قرض ٹھہراتا ہے اورپھر یہ قرض اس لیے مانگتا ہے کہ وہ بندوں کے دیئے ہوئے مال کو خوب بڑھا چڑھا کر ایک لازوال خزانے کی شکل میں اُنھی کو واپس کردے۔لہٰذا یہ قرضِ حسن ہونا چاہیے یعنی دل کی تنگی کے ساتھ نہ دیا جائے بلکہ پوری فراخ دلی اور حوصلے کے ساتھ دیا جائے۔ دکھلاوے و نمائش کے لیے نہیں بلکہ صرف خدا کی خوشنودی کے لیے دیا جائے۔ کسی دنیاوی لالچ کے حصول کی غرض سامنے رکھ کر نہ دیا جائے بلکہ صرف آخرت کے اجر کی خاطر دیا جائے۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ حقیر’ کم وقعت اور ناجائز ذرائع سے حاصل کیے ہوئے مال سے نہ دیا جائے۔ بلکہ محبوب’ عزیز اور پاکیزہ کمائی میں سے دیا جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘کوئی بندہ حرام مال کمائے پھر اس میں سے اللہ کی راہ میں صدقہ کرے تو یہ صدقہ اُس کی طرف سے قبول نہیں کیا جائے گا’’۔ (مشکوٰۃ)سنن ابن ماجہ میں ایک حدیث بیان ہوئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی شخص نے مسجد نبویؐ میں کھجوروں کا ایک خوشہ یا زیادہ خوشے بطور خیرات لٹکا دیئے تاکہ محتاج کھائیں۔ یہ کھجوریں کچھ اچھی نہ تھیں۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ خیرات کرنے والا قیامت کے دن خراب کھجوریں ہی کھائے گا۔ اس کے بعد جو کچھ صحابہؓ کے پاس ہوتا تھا اس میں سے بہترین چیز چن کر لاتے تھے۔

۲- اِحسان جتانا اور بدلہ چاہنا:

ارشاد باری تعالیٰ ہے:‘‘اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنی خیرات کو اِحسان جتا کر اور (سائل) کو دُکھ دے کر اس شخص کی طرح برباد نہ کرو جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روزِ آخرت پر یقین نہیں رکھتا’’۔ (البقرہ ۲:۲۶۲)آدمی کو چاہیے کہ اِنفاق کرتے وقت یہ بات ذہن میں بٹھانے کی کوشش کرے کہ یہ اللہ کا اس کے اُوپر بہت بڑا احسان ہے کہ اُس نے اس کو نہ صرف یہ کہ دینے کے قابل بنایا بلکہ دینے کی توفیق بھی بخشی۔ دیتے وقت آدمی کا ذہن جو ہونا چاہیے اس کی بہترین تعبیر قرآن کے ان الفاظ سے ہو رہی ہے:‘‘ہم تمھیں صرف اللہ کی رضا کے لیے کھلاتے ہیں’ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں ’نہ شکریہ’ ہمیں تو اپنے رب سے اُس دن کے عذاب کا خوف لاحق ہے جو سخت مصیبت کا انتہائی طویل دن ہوگا’’۔ (الدھر ۷۶: ۹-۱۰)نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: ‘‘قرابت دار کو اُس کا حق دے اور محتاج اور مسافر کو’’۔ (الروم ۳۰:۳۸)یعنی مال دار کے مال میں دوسروں کے بھی حقوق ہوتے ہیں اُنھیں دینا کوئی احسان نہیں ہے لہٰذا جو شخص اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے اِنفاق کا وہ صلہ چاہتا ہے جو اُس کو باغ باغ کر دے تو اُس کو قرآن مجید کی یہ آیات ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہئیں:

‘‘اور اُس (یعنی دوزخ) سے دُور رکھا جائے گا’ وہ نہایت پرہیزگار جو پاکیزہ ہونے کی خاطر اپنا مال دیتا ہے’ اُس پر کسی کا احسان نہیں کہ اُس کا بدلہ چکانا ہو’ وہ صرف اپنے پروردگار عالی شان کی رضاجوئی کے لیے یہ کام کرتا ہے اور وہ جلد نہال ہوجائے گا’’۔ (اللیل ۹۲:۱۷-۲۱)

۳- انفاق میں ترتیب کا خیال:

اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اِنفاق کے لیے ایک ترتیب بتائی ہے’ ارشاد باری تعالیٰ ہے:‘‘(اے پیغمبرؐ!) ان سے کہہ دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر’ رشتہ داروں پر’ یتیموں اور مسکینوں پر اور مسافروں پر (خرچ کرو)’’۔ (البقرہ ۲:۲۱۵)

معاشرے میں بہت سے خوش حال لوگوں کے عزیز نہایت پریشانی اور غربت کی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں لیکن اُن کے خوش حال عزیز اِنفاق کے قابل اور عادی ہونے کے باوجود اُن کو نظرانداز کرکے دوسروں کی مدد کرتے ہیں اور اُس کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ اُن کو اپنے عزیزوں سے کچھ واقعی یا غیرواقعی شکایات ہوتی ہیں۔ اُنھیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ہم اپنے اِنفاق کا مستحق صرف انھی کو سمجھتے ہیں جن سے ہم راضی اور خوش ہیں تو یہ انفاق بے غرض انفاق تو نہ ہوا’ یہ وہی غرض مندانہ کاروباری انفاق ہوا جس کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بے برکت قرار دیا ہے۔ جو شخص انفاق کی برکتوں سے محروم نہیں ہونا چاہتا اُس کو چاہیے کہ وہ اس ترتیب کو ٹوٹنے نہ دے جو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انفاق کے حق داروں کی بتائی ہے۔رشتہ داروں کا حق باہر کے یتیم مسکین سے زیادہ ہے۔ اب اگر ایک شخص اپنے رشتہ داروں کی بجائے باہر یتیم خانوں کو لاکھوں بھی دے تو وہ بے برکت ہوگا کیونکہ پہلا حق رشتہ دار کا تھا لہٰذا ترتیب کا خیال رکھنا ہوگا۔ آپؐ نے فرمایا:‘‘کسی اجنبی مسکین کو اللہ کے لیے کچھ دینا صرف صدقہ ہے اور اپنے کسی عزیز (ضرورت مند) کو اللہ کے لیے کچھ دینے میں دو پہلو اور دو طرح کا ثواب ہے: ایک یہ کہ وہ صدقہ ہے اور دوسرا یہ کہ وہ صلہ رحمی ہے (جو خود بہت بڑی نیکی ہے)’’۔ (ترمذی)آپ ؐ سے سوال کیا گیا کہ سب سے افضل صدقہ کون سا ہے؟ آپؐ نے جواب میں فرمایا: ‘‘جو ایک بے مایہ اپنی محنت کی کمائی سے اپنے کسی ایسے عزیز پر خرچ کرے جو اُس کے خلاف اپنے دل میں عداوت رکھتا ہو’’۔

۴- رِیا اور نمائش:

انفاق فی سبیل اللہ کی اصل رُوح اخلاص ہے۔ اور یہ اس انفاق میں پایا جاتا ہے جو درپردہ ہو۔ اعلانیہ کا بھی ایک پہلو باعث خیروبرکت ہے وہ یہ کہ اس سے دوسروں کو انفاق کی ترغیب ہوتی ہے لیکن عموماً علانیہ انفاق میں رِیا اور نمائش کی خواہش آدھمکتی ہے جو شخص اپنے انفاق کو ریا کی گندگی سے پاک دیکھنا چاہتا ہے اُسے چاہیے کہ وہ جتنا اعلانیہ خرچ کرے اُس سے زیادہ پوشیدہ طور پر خرچ کرے جس کی اُس کے ربّ اور اُس شخص کے سوا کسی کو بھی خبر نہ ہو’ جس کے لیے اُس نے خرچ کیا ہے۔

۵- بخل کرنا:

اگر نفس یا شیطان اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے روکے تو اپنے آپ کو بار بار اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد یاد کروائیں‘‘جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل (و کرم) سے دیا ہے اور وہ (اللہ کی راہ میں) اس (کے خرچ کرنے) میں بخل کرتے ہیں۔ وہ اس (بخل کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں بلکہ وہ اُن کے حق میں بدتر ہے۔ وہ جس (مال) کا بخل کرتے ہیں یقینا وہ قیامت کے دن اُس کے گلے میں (عذاب کا) طوق بنا کر پہنا دیا جائے گا۔ اور (یاد رکھو) آسمان و زمین کا وارث (آخرکار) اللہ ہی ہے اور جو کچھ بھی تم کرتے ہو اللہ اُس سے باخبر ہے’’۔ (آل عمران ۳: ۱۸۰)

۶- سائلوں سے سلوک:

آدمی جس سائل اور محتاج کو بھی دیکھے اِس سے یہ سبق سیکھنے کی کوشش کرے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اُس کو بھی اس سائل کی حیثیت میں پیدا کرسکتا تھا اور اگر چاہے تو اب بھی اُس کی صف میں اُس کو کھڑا کرسکتا ہے۔ سائلوں سے سلوک کے ضمن میں قرآن مجید کی یہ ہدایت ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے: ‘‘سائل کو جھڑکو مت’’۔ (الضحیٰ ۹۳: ۱۰)

اگر آدمی کچھ دے سکے تو دے دے اور اگر نہ دے سکے یا اُن کو غیرمستحق’ پیشہ ور گداگر سمجھے تو ہمدردی کے چند کلمات کے ساتھ ان کو رخصت کرنے کی کوشش کرے۔

سوال کی ممانعت

انفاق فی سبیل اللہ پر اتنا زور دینے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے سوال اور گداگری کو سخت ناپسند کیا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

‘‘تم میں سے کوئی رسّی لے اور لکڑیوں کا گٹھا اپنی پیٹھ پر اُٹھا کر لائے اور اُسے بیچے اور اِس کے ذریعے اللہ تعالیٰ اُس کی عزت کو محفوظ رکھے’ تو یہ اُس کے لیے اِس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے مانگے (پھر) وہ اُسے دیں یا نہ دیں’’۔ (بخاری)

اور ‘‘ایک آدمی لوگوں سے مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا کہ (سوال کرتے رہنے کے باعث) اُس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا نہ ہوگا’’۔ (بخاری)ان احادیث کی روشنی میں یہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ حاجت مند جن کو صدقہ و خیرات دی جارہی ہے’ کمانے کی صلاحیت رکھتے ہوں تو پھر اُنھیں اس طرح مالی امداد دی جائے کہ وہ کمانے کے قابل ہوجائیں۔ مثلاً کسی کو مدد دے کر کوئی چھوٹی موٹی تجارت شروع کرا دی جائے یا کسی کو تعلیم حاصل کرنے میں مدد دی جائے جس سے وہ آگے چل کر اپنا اور اپنے متعلقین کا بوجھ اٹھا سکے یا کوئی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے وہ محتاج جو کمانے کی طاقت رکھتا ہو اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجائے۔ اس طرح وہ تمام عمر جو کمائے گا اور جتنے لوگوں کی کفالت کرے گا سب کا اجر ان شاء اللہ اس مدد کرنے والے کو بھی ملے گا جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:‘‘جس نے کوئی دودھ دینے والا جانور (راہِ خدا) میں دیا’ اُس کے لیے ایک خیرات کا ثواب صبح ہوگا اور ایک خیرات کا ثواب رات کو۔ (صبح کا ثواب) صبح کا دودھ پیئے جانے کے وقت اور (شام کا ثواب) شام کا دودھ پیئے جانے کے وقت’’۔ (مسلم)

تاہم معاشرے میں بے شمار لوگ ایسے ہوں گے جو کمانے کا کام نہیں کرسکیں گے۔ مثلاً چھوٹے بچوں والی بیوہ عورتیں’ یتیم بچے’ جسمانی معذور’ دائم المرض انسان وغیرہ وغیرہ۔ ایسے لوگوں کی بہرحال امداد کرنا ہوگی’ اور اتنی ہمدردی اور خوش دلی سے امداد کرنا ہوگی کہ انھیں اپنی محرومی کا احساس نہ ہونے پائے۔

جذبۂ انفاق رکھنے والے

رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘اگر یہ اُحد میرے لیے سونے کا بن جائے تو میں پسند نہیں کرتا کہ تیسری رات آنے تک اُس میں سے ایک دینار میرے پاس رہ جائے’ سوائے اُس دینار کے جسے میں قرض اد کرنے کے لیے رکھ چھوڑوں’’۔ (مسلم)

صحابہ کرامؓ کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اگرچہ بعض بزرگ سخت تنگ دستی سے دوچار رہتے تھے تاہم جو کچھ تھوڑا بہت ملتا تھا اُس میں سے صدقہ و خیرات کرنا ضروری سمجھتے تھے۔

حضرت عبدالرحمن بن عوف اُن دس اصحابؓ میں سے ہیں جنھیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس دنیا میں جنت کی بشارت سے نوازا تھا۔ اُن کا تجارتی مال سینکڑوں اُونٹوں پر لَد کر باہر جاتا تھا اور اسی طرح باہر سے آتا تھا۔ اُنھوں نے دو بار چالیس چالیس ہزار دینار راہِ خدا میں وقف کیے۔ جہاد کے لیے پانچ سو گھوڑے اور پانچ سو اُونٹ حاضر کیے۔ سورۃ برأت کے نزول کے موقع پر چار ہزار درہم پیش کیے۔ آپؓ نے اپنی ایک زمین چالیس ہزار دینار میں بیچی اور یہ ساری رقم فقراء’ اہل حاجت اور اُمہات المومنینؓ میں تقسیم کر دی۔ ایک مرتبہ پورا قافلۂ تجارت(صرف سامان ہی نہیں بلکہ اُونٹ اور پالان تک) راہِ خدا میں وقف کردیا۔ تیس ہزار غلام اور لونڈیاں خرید کر آزاد کیں۔ راہِ خدا میں دل کھول کر خرچ کرنے کے باوجود انھیں ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی تھی کہ یہ مال و دولت آخرت میں کہیں نقصان کا باعث نہ ہو۔ ایک بار انھوں نے اُم المومنین حضرت اُم سلمہؓ کی خدمت میں عرض کی: مجھے اندیشہ ہے کہ کثرتِ مال کہیں (آخرت میں) مجھے تباہ و برباد نہ کردے۔ اُنھوں نے جواب دیا: ‘‘بیٹا! اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہا کرو’’۔

حضرت عبداللہؓ بن عمر کا معمول تھا کہ جو چیز پسند ہوتی اُسے خدا کی راہ میں دے دیتے۔ ایک بار سفرحج میں اُونٹنی کی چال پسند آئی تو اُس سے اُتر کر اپنے غلام سے کہا کہ اسے قربانی کے جانوروں میں داخل کرلو۔کھجور کے باغات کے لحاظ سے مدینہ کے انصار میں سب سے زیادہ دولت مند حضرت ابوطلحہؓ تھے اور اُنھیں اپنے باغات اور جائیدادوں میں سب سے زیادہ محبوب باغ بیرحاء تھے۔ جب قرن میں یہ آیت اُتری:‘‘(لوگو) تم نیکی (کے درجے) کو ہرگز نہیں پہنچ سکتے جب تک (خدا کی راہ میں) اُن چیزوں میں سے نہ خرچ کرو گے جو تم کو عزیز ہیں اور جو چیز بھی تم خرچ کرو گے اللہ اُس سے واقف ہے ’’۔ (آل عمران۳:۹۲)تو ابوطلحہ ؓ حضور صلی للہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: یارسولؐ اللہ! آپؐ پر یہ آیت اتری ہے اور مجھے اپنے مالوں میں سب سے زیادہ محبوب باغ بیرحاء ہے تو اب میں اس کو اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں اور اللہ ہی کے ہاں اجر وصلہ چاہتا ہوں۔ یا رسولؐ اللہ! اب آپ اس کو جس مصرف میں چاہیں لے آئیں۔ بعد میں حضوؐر کی ہدایت کے مطابق انھوں نے یہ باغ اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردیا۔ اس باغ کی قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس باغ کا چوتھائی حصہ چند سال بعد ایک لاکھ درہم میں فروخت ہوا’’۔ (بخاری)

آخری بات

واضح رہے کہ جسم و جان کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے تو بہت کم چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ جو ہم اپنی غذا’ لباس اور رہائش پر ڈھیروں ڈھیر خرچ کرتے ہیں یہ واقعی اور حقیقی ضروریات کے باعث نہیں ہوتا بلکہ اکثروبیشتر صرف لذت حاصل کرنے’ جسم کو آرام پہنچانے اور معاشرے میں وقار حاصل کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ جن دانا اور سعید روحوں نے لذت’ آرام اور وقار کا صحیح مفہوم سمجھا تھا’ اُنھوں نے اپنے مال کے لیے ایسے صحیح مصرف چن لیے تھے جن کے باعث وہ اُس لذت’ اُس آرام اور اُس وقار کے مستحق ہوگئے جو موت کے ساتھ ختم نہیں ہوتا بلکہ موت کے بعد ابدی زندگی میں بھی ساتھ رہتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے‘‘کون ہے جو اللہ کو قرض دے؟ اچھا قرض’ تاکہ اللہ اُسے کئی گنا بڑھا کر اُس (دینے والے) کو واپس کرے اور اُس کے لیے عزت والا اجر ہے’ اُس دن جب کہ تم مومن مردوں اور مومن عورتوں کو دیکھو گے کہ اُن کا نور اُن کے آگے آگے اور اُن کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا (اُن سے کہا جائے گا کہ) آج خوش خبری ہے تمھارے لیے’ جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے یہی ہے بڑی کامیابی’’۔ (الحدید ۵۷:۱۱-۱۲)

اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین!