شیطانی اورنفسانی گناہوں کا فرق

مصنف : مولانا اشرف علی تھانویؒ

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مارچ 2007

خطرات نفسانیہ اور شیطانیہ میں فرق

            اگر ایک ہی معصیت کا تقاضا نفس میں بار بار ہو تو یہ علامت اس بات کی ہے کہ خطرہ نفسانی ہے اوراگر ہر مرتبہ مختلف قسم کے گناہوں کا تقاضا ہو تووہ خطرہ شیطانی ہے کیونکہ نفس کا خطرہ اپنی خواہش شہوت و لذت پورا کرنے پر مبنی ہوتا ہے اسی کومکرر پیش کرتا رہتا ہے اور شیطان کی غرض تو یہ ہے کہ کسی نہ کسی گناہ میں مبتلا ہو جائے ایک گناہ کے خطرہ کو اس نے دفع کیا تو وہ دوسرے گناہ کا خیال پیدا کردیتا ہے اورجو خطرات عقائد کے متعلق ہوں وہ سب شیطانی ہوتے ہیں۔

تفویض

            دعا میں الحاح کرنا اور بار بار دعا کرتے رہنا یہ تفویض کے منافی نہیں ہے ہاں قبولیت دعا کے آثار نہ آنے پر پریشان ہونا منافی تفویض ہے کیونکہ وہ اپنی تجویز سے پیداہوئی ہے اورتجویز و تفویض میں تضاد ہے۔ علمی اورعملی کمالات دینی میں بھی تفویض کا ایک درجہ یہ ہے کہ ان کے حاصل کرنیکا قصد بھی کرے اورکوشش بھی کرے مگراسکے ساتھ عدم حصول پر بھی راضی رہے اور پریشان نہ ہو۔

عموم بلوہ اور حلت و حرمت

            ارشاد فرمایا آج کل دو چیزیں منکرات میں عام ہو گئی ہیں تصویر اورالکحل احقرنے عرض کیا کہ کیا اس ابتلا عام اور عموم بلوے کی کوئی رعایت حکم میں کی جاسکتی ہے تو ارشاد فرمایا کہ حلت و حرمت میں عموم بلوے معتبر نہیں بلکہ نجاست و طہارت میں معتبر ہے وہ بھی جب کسی چیز کی نجاست و طہارت میں مجتہدین سلف کا اختلاف ہو۔

حاضرات محض خیالی چیز اور مسمریزم کی قسم ہے

            ارشاد فرمایا کہ بہت سے تعویذ گنڈے والے حاضرات کے ذریعہ معلومات حاصل کرنے کے قائل ہیں میرا تجربہ یہ ہے کہ حاضرات محض خیالات کا تصرف ہے اگر اس مجلس میں کوئی آدمی یہ خیال جما کر بیٹھے کہ یہ کچھ نہیں بالکل باطل ہے توحاضرات کاظہور اسے نہ ہو سکے گا ہم نے خود اس کا تجربہ کیا ہے کہ جب تک یہ خیال جمائے بیٹھے رہے حاضرات والے عاجز ہو گئے کچھ نظر نہ آیا اور جب یہ خیال ہٹا لیا تو سب کچھ نظر آنے لگا۔

تکبرکی حقیقت اور ایک اشکال کا جواب

            ایک شخص جو کسی کتاب کا ایک حرف نہ پڑھ سکتا ہو نہ لکھ سکتا ہوجب کہ دوسرا آدمی عالم فاضل حافظ و قاری مفسرومحدث ہو وہ کیسے باور کرے کہ نا خواندہ آدمی اس سے زیادہ کامل ہے اس لیے اگر ایک عالم یہ سمجھے کہ مجھے لکھنا پڑھنا آتا ہے میں اس وصف میں بہ نسبت دوسرے کے کامل ہوں اور یہ کمال بھی کوئی میری ذاتی جاگیر نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کا عطیہ اور انعام ہے تو یہ تکبر میں داخل نہیں خلاصہ یہ کہ اپنے کو کسی خاص وصف میں دوسرے سے اکمل جاننا تکبر نہیں ہاں افضل اور بہتر جاننا تکبر ہے کیونکہ افضل اوربہتر ہونے کا مدار اللہ تعالی کے نزدیک قبول اورانجام بخیر ہونے پر ہے اور اس کا کسی کو علم نہیں اس لیے اپنے آپ کو کسی ادنی سے ادنی انسان سے افضل جاننا جائز نہیں۔

جوکام لا یعنی ہو وہ اگرچہ گناہ نہ ہو مگر مضر پھر بھی ہے

            انسان کا ہر عمل خواہ وہ دین کے متعلق ہو یا دنیا کے تین قسموں میں ہوتا ہے ایک وہ عمل جو اس کے لیے مفید ہے دوسرے وہ عمل جو مضر ہے تیسرے وہ عمل جو نہ نافع ہے نہ مضر ۔ لیکن غورکرنے کے بعد معلوم ہوا کہ درحقیقت یہ تیسری قسم بھی دوسری قسم یعنی مضر میں داخل ہے کیونکہ جتنا وقت اورتوانائی اس بے فائد ہ کام میں صرف ہوئے اگر وہ کسی مفید کام میں صرف کیے ہوتے تو اس سے بڑا فائد ہ ہوتا اس فائدہ سے محرومی خود ایک مضرت اور خسارہ ہے جیسے کوئی تاجر اپنا سرمایہ کسی کام میں لگائے اوراس سے نہ نفع ہو نہ نقصان تو وہ پھر بھی اس کو اپنا نقصان اور خسارہ سمجھتا ہے کہ متوقع نفع سے محرومی ہو گئی۔

مسئلہ جبر واختیار

            ارشاد فرمایا کہ ہمارے افعال تو ہمارے اختیار میں ہیں مگر اختیار ہمارے اختیار میں نہیں۔

رخصت اورعزیمت

            مولانا محمد قاسم ناناتوی مرض وفات میں باوجودشرعی رخصت کے تیمم نہ کرتے تھے بلکہ تکلیف کے ساتھ وضو کا اہتمام ہی کرتے تھے مولانا محمد یعقوب نانوتوی خدمت میں حاضر ہوئے یہ دیکھ کر فرمایا کہ آپ تواس کو کمال سمجھتے ہیں کہ تیمم کی رخصت ہونے کے باوجود وضو کرتے ہیں مگر میرے خیال میں یہ کمال نہیں بلکہ ایک نقص ہے کہ تیمم جو اللہ تعالی نے ایک نعمت کے طو ر پر بیمارکے لیے مشروع اورجائز قرار دیا ہے اللہ کے اس انعام سے دل میں تنگی پیدا ہونا کوئی کمال نہیں بلکہ ایک روگ ہے۔ قاسم صاحب نے اس رائے کو پسند فرمایا اوراس کے مطابق عمل کرنے لگے ۔ حضرت نے فرمایا کہ شرعی رخصتوں سے دل میں انقباض اورتنگی محسوس ہو تو وہ مذموم ہے طبعی انقباض اور چیز ہے عبدیت کا تقاضایہی ہے کہ بیمار اپنی کمزوری اور ضعف کا اعتراف کرے اللہ کی دی ہوئے نعمتوں پر خوش دلی سے عمل کرے ۔

            (ملفوظات تھانویؒ بحوالہ مجالس حکیم الامت از مفتی شفیعؒ صاحب)