آنکھیں بھیگ جاتی ہیں!

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : یادِ رفتگاں

شمارہ : جنوری 2007

            دنیا کے اس سٹیج پر چہرے کچھ اس تیزی سے بدل رہے ہیں کہ یوں محسو س ہوتا ہے کہ گویا ابھی یہ چہرہ سٹیج کے اس پارسے نمودار ہوا تھا اور ابھی اُس پار غائب بھی ہو گیا۔ہر سال کا ڈوبتا سورج اپنے سنگ کتنے ہی چہروں کولیے سٹیج کے اُس پاراتر جاتا ہے اور پھر نگاہیں ترستی ہی رہ جاتی ہیں مگر وہ چہرے سٹیج پہ دوبارہ نمودار نہیں ہو پاتے ۔اگرچہ یہی قانون قدرت ہے اور یہی دستور زمانہ کہ جانے والے دوبارہ نہیں آیا کرتے مگر نہ جانے بعض چہرے کیوں ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے آنے کی ایک بے نام سی آس لگی رہتی ہے یا کم از کم ان کی موجودگی محسوس ہوتی رہتی ہے۔ ایسا ہی اک چہرہ میری دادی امی کا چہرہ ہے جو اگرچہ دوسال پہلے غروب ہونے والا سورج اپنے ساتھ لے کر چلا گیا تھامگر اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ اب بھی ہمارے ساتھ ہی تو ہیں اوربعض اوقات تو یہ احساس اتنا قوی ہوتاہے کہ پیچھے مڑ کر دیکھنا پڑتاہے کہ شاید وہ ابھی یہیں کھڑی یا بیٹھی تھیں۔

            اس سال گرمیوں میں جب پہلی بار آم کھانے لگا تو بے اختیار آنکھیں ایک بار پھراشک بار ہو گئیں ۔ دادی امی کا شفقت بھرا چہرہ آنکھوں میں گھوم گیا ۔ دادی امی کی عادت تھی کہ خاص طور سے گرمیوں کی رات میں آم کا رس نکال کر ایک پیالی میں ڈال لیتیں اور اس کے ساتھ روٹی کھایا کرتیں ۔ ہائی شوگر ہونے کی وجہ سے زیادہ میٹھا نہ کھاتیں لیکن آم کو یوں کھانا ان کو بہت پسند تھا ۔ آم ہاتھ میں لیتے ہی آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں آم وہیں چھوڑ کر اپنا غم غلط کرنے باہر کو چل دیا ۔ ایسے ہی جب بھی امرود سامنے آتے ہیں تو دادی امی کے چہرے پر پھیلے خوشی او رمسرت کے تاثرات آنکھوں میں گھوم جاتے ہیں ۔ دانت نہ ہونے کے باوجود دادی امی کو امرود سے بہت رغبت تھی اور امرود کے بیج نکال کر امرود ضرور کھاتیں ۔

 ٭٭٭

 سارے عالم میں یہ تحریک پھیلا دو

 کنڈے لگا دو ، کنڈے لگا دو

            درج بالا الفاظ وہ ہیں جو بے اختیار میری زبان سے اس وقت جاری ہو جاتے جب بھی شام کو دادی امی دروازے بند کرکے انہیں تالے لگانے کو کہتیں اس معاملے میں وہ حد سے زیادہ محتاط تھیں اور انتہائی فکر مند بھی ۔ جب بھی پھوپھو کے ہاں جاتیں تو دروازوں کو تالے لگانے کی خصوصی ہدایات ضرور کرتیں ۔ اُس وقت تو بعض اوقات میں جھنجلاجاتا لیکن معلوم نہیں کہ دادی امی میں وہ کیا خاص بات تھی کہ وہ خود تو چلی گئیں لیکن میں جو کہ اس معاملے میں بالکل ہی لاپروا تھا مجھے یہ فکر دے گئیں اب نہ چاہتے ہوئے بھی رات کو جب تک ایک بار خود اپنے ہاتھوں سے دروازے چیک نہ کر لوں ، اطمینان نہیں ہوتا ۔

 ٭٭٭

            دو سال بیت چلے لیکن آج بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ دادی امی ہر لحظہ ، ہر لمحہ ، ہر گھڑی میرے ساتھ ہیں اور یوں لگتا ہے کہ وہ ہمارے اندر ہی چل پھر رہی ہیں ۔ آج جب کہ میں ایک بار پھر رزلٹ کا منتظر ہوں تو دور افق سے مجھے دادی امی کی آواز سنائی دیتی ہے کہ جیسے کہہ رہی ہوں ‘‘اللہ تینوں فرسٹ پاس کرے ’’۔ اور میں گرد و پیش میں دیکھتا رہ جاتا ہوں کہ دادی امی کہاں ہیں ؟ جب میں ان کو دباتا ، ان کی خدمت کرتا تو بے اختیار دادی امی مجھ پر اس کائنات کا سب سے قیمتی خزانہ یعنی دعائیں نچھاور کرنے لگتیں اور مجھے یہ سودا کچھ مہنگا معلوم نہ ہوتا ۔ مجھے یاد ہے بچپن میں ہم دادی امی سے ‘‘ایک روپیہ’’ لینے کی خاطر بخوشی ان کو دبانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے لیکن زمانے نے کروٹ بدلی ادھر روپے کی قیمت ختم ہوئی اورادھر ہم بڑے ہو گئے۔اب دادی امی کی یہ آفر تو دل کو نہ بھاتی لیکن ان کی دعاؤں والی آفر میں اب زیادہ کشش تھی ۔ آہ! وقت سدا ایک سا نہیں رہتا ۔

            اس وقت میں بہت چھوٹا تھا لیکن مجھے یاد ہے کہ دادی امی کا ایک ہاتھ میں تھامتا اور دوسرا ہاتھ بڑا بھائی اور ہم دونوں امید بھری نظروں سے دادی امی کی طرف دیکھتے تو دادی امی مسکرا دیتیں اور ہم دونوں کو لیے دکان کی طرف چل دیتیں ۔ اکثر دوکاندار سے جو کہ دادی امی کا انتہائی احترام کرتا تھا اس سے دادی امی کی اس بات پر بحث ہو جاتی کہ ایک روپے کی بارہ ٹافیاں آتی ہیں لیکن وہ کہتا ‘‘ماں جی! ہن نہیں آندیاں ’’ تو دادی امی اس کو جھڑک دیتیں اور وہ مسکرا دیتا ۔

            دادی امی کو مجھ سے بہت محبت تھی ۔ اکثر جب گھر میں کوئی نہ ہوتا تو گھنٹوں میرے ساتھ باتیں کرتیں اور مجھے اپنے ماضی میں لے جاتیں ۔ہماری طرح ان کا بچپن بھی بہت حسین تھااور یہ وقت قیام پاکستان سے قبل کا تھا۔میں ان تمام باتوں کو بہت تجسس سے سنتا۔جب میں ان کو دباتا تو مجھے ڈھیروں دعائیں دیتیں۔ میں جب پیپر دیکر گھر لوٹتا تو اپنے پاس بٹھا کر تفصیل سے پوچھتیں ۔ اگر سوئی بھی ہوتیں تو اٹھ جاتیں اور سب سے پہلے پوچھتیں کہ کھانا کھایا یا نہیں۔ پھر پیپر کے بارے پوچھتیں اور ان کے دل سے دعا نکلتی ‘‘اللہ تینوں فرسٹ پاس کرے ’’ ۔ دادی امی کی اس دعا کے اثرات شاید میرے علاوہ کوئی نہ سمجھ سکے ۔ اب جب بھی ان کے بعد رزلٹ آتا ہے تو میں دادی امی کی اس دعا کو تلاش کرتا رہ جاتا ہوں ۔

 ٭٭٭

            سردیاں ایک بار پھر دستک دے رہی ہیں ۔ اور سرد راتوں میں دادی امی کی یاد نہ ستائے یہ ہو نہیں سکتا ۔ اب راتوں کو سردی زیادہ لگتی ہے تو خود ہی اٹھ کر لحاف درست کرنا پڑتا ہے ۔ دادی امی رات کو تین چار بار واش روم جانے کے لیے اٹھتیں تو ہمارے لحاف ضرور درست کرتیں چاہے ایسا کرنے میں انہیں کتنی ہی مشکل کیوں پیش نہ آئے لیکن جب بھی رات میں اٹھتیں ہمارے لحاف ضرور درست کرتیں ،صبح ہوتی تو کہتیں ‘‘ہن نہیں ہندا ، آپی کریا کرو ، ہن ہمت نہیں رہی’’ لیکن جونہی رات ہوتی پھر سب بھول جاتیں ۔ نجانے کہاں سے ان میں ہمت آجاتی اور وہ ایک بار پھر جتنی بھی مشکل اٹھانا پڑتی اٹھاتیں ہمارے لحاف ضرور درست کرتیں ۔

             عید کی بھی آمد آمد ہے ۔ ایسے میں دادی امی کا وہ خوشی سے تمتماتا چہرہ کیسے بھولوں ؟ نماز عید ادا کر کے ہم گھر آتے تو دادی امی کی خوشی کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا کہ ایک بار پھر جوان ہو گئی ہیں ۔ دادی امی خوشی سے دمکتا چہرہ لیے اپنے کمرے کے دروازے پر آنکھیں لگائے ‘‘عیدی’’ لیے بیٹھی ہوتیں ۔ آج وہ تو نہیں لیکن نجانے کیوں آج بھی نماز عید کے بعد جب گھرمیں داخل ہوتا ہوں تو نگاہیں بے اختیار دادی امی کی چارپائی کی جانب اٹھ جاتی ہیں اور خالی بستر کا طواف کر کے بے مراد واپس پلٹ آتی ہیں ۔ آہ! میری دادی امی

 ٭٭٭

            مجھے معلوم نہ تھا کہ مجھے دادی امی سے اتنی محبت ہے کیونکہ ان سے کبھی جدا ہوئے ہی نہ تھے ۔ امی جان کی گود سے نکلے تو دادی امی کی جھولی میں آگئے ۔ان کی وفات پہ میں اتنا رویا کہ بچے بھی یوں ہلکان نہ ہوتے ہونگے ۔ یوں لگا کہ جیسے دنیا ہی ختم ہو گئی ہو لیکن وقت جو ہر زخم کا مرہم بن جاتا ہے وہ میرے زخم کا بھی بن گیا۔ اس دن معلوم ہوا کہ صبر کرنا کتنا مشکل ہے ۔ اگرچہ اپنے ہاتھوں سے دادی امی کو لحد میں اتارا لیکن بہت دنوں تک مجھے یقین ہی نہ آسکا کہ میری پیاری دادی امی ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکی ہیں ۔ وہ دادی امی کہ جن کی ناراضی میں بھی پیار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا تھا ۔ بہت دنوں تک یوں محسوس ہوتا رہا کہ میرا ایک وجود نہیں گویا میرے دو وجود ہیں جیسے دادی امی بھی میرے وجود کا حصہ بن چکی ہوں ۔ خود کو یہ یقین دلانا کتنا مشکل تھا اور ہے کہ واقعی دادی امی رخصت ہوچکی ہیں ۔

            ابو ، امی او رہم سب چھپ چھپ کر آنسو بہاتے رہتے کہ کسی نے دیکھ لیا تو کیا کہے گا کیونکہ دنیا کی نظر میں ہم بڑے ہو چکے تھے لیکن دنیا کو کون سمجھاتا کہ ہمارے آنسو بے قابو کیوں ہو گئے ہیں ؟ لوگوں کو کیا معلوم کہ ہم نے دادی امی نہیں بلکہ بہت کچھ کھو دیا تھا ۔

            یادیں بھی بے شمار ہیں اور باتیں بھی بہت لیکن کیا کروں کہ ان یادوں ، ان باتوں اور ان جذبات کو زبان دینے کے لیے الفاظ میرے پاس بہت کم ہیں۔

            دو سال بیت چلے لیکن آج بھی دادی امی کی یاد آتی ہے تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔