ناکامی ، کامیابی کا زینہ

مصنف : سید عمر فاران بخاری

سلسلہ : متفرقات

شمارہ : مارچ 2009

            وہ ایک ازلی اداس اور خاموش شخصیت کا مالک تھا۔ وہ ہمیشہ سے تنہا تنہا رہنے والا تھا۔ وہ کبھی محفل نہ بن پایا۔ اس نے خود کو ہمیشہ تنہائی کے سپرد کیے رکھا ۔وہ بہت سیدھا سادا تھا۔ اس نے کبھی اخلاق سے عاری حرکت کرنے کی کوشش تک نہ کی تھی ۔ کبھی جھوٹ بولنا چاہا بھی تو بول نہ پایا کجا کہ کسی کو کوئی چکمہ یا دھوکہ دیتا۔ دل کا انتہائی نرم تھا مگر اپنی تنہائی اور خاموشی کی بدولت لوگ اس کو مغرور خیال کرتے ۔ مگر اس نے اس سب پہ کبھی دھیان نہ دیااور ہمیشہ اپنی ہی دھن میں مگن رہا۔ وہ تعلقات بنانے کا بھی ماہر نہ تھا بلکہ وہ تو ہر شخص سے گریز کیا کرتا تھا۔ سادہ اتنا تھا کہ لاہور میں پیدا ہونے اور پرورش پانے کے باوجود اسے لاہور کے کسی مقام کا کوئی علم نہ تھا۔ اس کے والد ہمیشہ اسے نصیحت کیا کرتے کہ بیٹا ! آنکھیں کھولو، زمانے کی رفتار سے چلو ورنہ کچلے جاؤ گے ، لوگ تمہیں بری طرح ‘‘استعمال’’ کریں گے۔ مگر اسے اپنی اس سادگی اور تنہائی سے بہت پیار تھا۔ اس نے اپنے جذبات تک کسی کو رسائی دی۔ مشکل سے مشکل ترین صورت حال میں بھی ہمیشہ خود کو قابو میں رکھتا اور کسی کو کچھ بھی نہ بتاتا۔                میرے ساتھ بھی نہ ہوتے ہوتے اچانک دوستی ہو گئی اور پھر ہم بہت قریب آگئے۔ وہ مجھے شروع ہی سے بہت اچھا لگا تھا اس لیے کہ میری طرح اسے بھی دوغلے پن اور منافقت سے نفرت تھی ۔

            پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ اس کے والد کی بات پوری ہوئی ۔وہ کسی کے جھانسے میں آگیا۔ کسی نے اسے استعمال کر لیا۔ وہ کسی کی اداکاری کو سچ جان بیٹھا۔اداکاری والا بچ گیا اور مجرم وہ بن گیا۔ اسے اپنے حق میں صفائیاں دینا پڑیں۔اپنی کم مائیگی کی بدولت وہ اپنامقدمہ بھی صحیح طور سے نہ پیش کر سکا اور قصور وار ٹھہرا۔

             وہ اس کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔ وہ اندر سے بالکل ہی ٹوٹ پھو ٹ کا شکار ہو گیا۔ اس ضبط والے انسان کی آنکھوں میں اب آنسو صاف دکھائی دیتے۔ وہ زندگی میں پہلی بار مکمل طور پر ناکام ہو گیا تھا……

            کہتے ہیں کہ وقت پہلے کاری ضرب لگاتا ہے لیکن بعد میں وقت ہی سب سے اچھا معالج ہوتا ہے۔ سو وقت کے ساتھ ساتھ اس کے بھی رستے زخم مندمل ہوتے چلے گئے۔ اوراس میں ایک تبدیلی بھی آتی چلی گئی۔ وہ وہ نہ رہا…… اب نہ تو وہ اداس تھا، نہ تنہائی کا شکار ، نہ ہی اتناسادہ کہ ہر کوئی اسے بیچ ڈالے …… نہ اتنا انجان کہ اسے راستوں کا علم نہ ہو۔ اب وہ اپنی ذات میں محفل بن چکا تھا۔ اب اس کے بے شمار دوست تھے۔ اب وہ پہلے سے بہت ‘‘ہوشیار’’ ہو گیا تھا…… اب اس کے اندر ایک خود اعتمادی تھی۔ جس کے پاس لفظ نہیں ہوتے تھے اب اس کے پاس لفظوں کا ایک ذخیرہ تھا۔ اب وہ انتہائی خوش مزاج ہو گیا تھا۔ اب اسے زمانے کی رفتار سے چلنا آگیا تھا…… اب اسے ‘‘منافقت’’ اور ‘‘مصلحت’’ میں فرق معلوم ہو گیا تھا۔ سو…… اب وہ ایک مکمل اور مضبوط قوت ارادی رکھنے والا ایک مضبوط شخص تھا…… !!!

٭٭٭

             سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے خدا کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا۔ انسان جیسے جیسے کامیابیاں سمیٹتا چلا جاتا ہے ویسے ویسے اس کے اعتماد میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے مگر پھر بھی کچھ خرابیاں ایسی رہ جاتی ہیں جن کی طرف انسان کا دھیان نہیں جاتا اور اگر کوئی ان غلطیوں کی نشان دہی کر بھی دے تو کامیابیوں اور کامرانیوں کے نشے میں انسان ان کی طرف متو جہ نہیں ہوتا۔ لیکن چونکہ اس کی بنیاد مضبوط نہیں ہوتی ، اس لیے کہیں نہ کہیں اسے شدید دھچکا لگتا ہے اور وہ بالکل منہدم ہو کر رہ جاتا ہے تب اسے احساس ہوتا ہے کہ کہاں اور کس جگہ کیا کمی ،کیا کوتاہی رہ گئی تھی جس پرقابوپانا ضروری تھا ۔ اسی لیے حضرت علیؓ کا قول ہر وقت یاد رکھنے کے لائق ہے ۔ انسان کو کبھی کبھی ناکام بھی ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے رویوں ، اپنے طریقوں اور اپنی خواہشات پر نظر ثانی کرے ……

             کامیابی انسان کو وہ کچھ نہیں سکھا سکتی جو ناکامی سکھا جاتی ہے۔۔ صرف ا یک ناکامی انسان کو سکھا دیتی ہے کہ اسے زندگی کا سفر کیسے طے کرنا ہے ۔ کس سے میل جول بڑھانا ہے اور کس سے نہیں، کون آپ سے مخلص ہے اور کون نہیں۔ یہ سب کچھ سکھاتی ہے مگر ناکامی ۔ میں آج بھی یقین سے کہتا ہوں کہ اگر وہ اب ناکام نہ ہوتا تو اسے معاشرے کے ساتھ قدم بقدم چلنے کا سلیقہ کبھی نہ آتا۔

            بالکل یہی معاملہ قوموں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ 9/11 کے بعد پاکستان میں بے شمار زر مبادلہ آیا جس کا انتہائی غلط استعمال کیا گیا۔ دھڑا دھڑ موبائل امپورٹ کیے گئے۔ دھڑا دھڑ گاڑیاں Lease پر دی گئیں ۔ مگر اس وقت کی حکومت اور عوام اس زعم میں مبتلا رہے کہ زر مبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے رہیں اور ہم ترقی کی راہ پہ گامزن ہیں اور ہمارے سامنے کوئی معاشی مشکلات نہ ہوں گی۔ اس لمحے کسی نے آنے والے دنوں اور بنیادی غلطیوں کی نشان دہی کی بھی تو اسے کوئی اہمیت نہ دی گئی کیونکہ کامیابیوں کا نشہ طاری تھا…… لیکن آج یہ نشہ اتر گیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ موبائل سب کے پاس ہیں لیکن ان میں ڈالنے کے لیے پیسے نہیں۔گاڑی سب کے پاس ہے لیکن اس کی قسط چکانے کے لیے پیسے نہیں۔ گاڑیاں چلانے کے لیے سڑکیں ناکافی اور پٹرول مفقود۔ یہ باتیں ہم اس وقت سننے کو بالکل تیارنہ تھے جب ہم کامیابی کے زعم میں مبتلا تھے لیکن آج …… جب ہماری کامیابیوں کے مینار زمیں بوس ہو چکے ہیں تو اب تو ہمیں سیدھی راہ پر آ جانا چاہیے ۔ اب بھی ہم اگر نیک نیتی سے کام اپنی ناکامیوں سے سبق سیکھ لیں توکوئی وجہ نہیں کہ ہم ایک مضبوط اور پائیدار معیشت بن کے نہ ابھریں ۔جس طرح وہ ایک مکمل اور خود پر یقین رکھنے والا انسان بن کے ابھرا تھا۔ لہذا ناکامیاں بہت کچھ سکھاتی ہیں ۔ ناکامیاں آپ کو اپنی بنیادی غلطی تلاش کرنے اور پھر اس پر غلبہ پانے میں مدد دیتی ہیں لیکن اگر کوئی سیکھنا اور سمجھنا چاہے تو…… اب بھی بحیثیت قوم ہم نے اپنی کوتاہیوں ، غلطیوں اور ناکامیوں سے نہ سیکھا تو پھر بس کہانیاں ہی رہ جائیں گی جو ‘دادی اماں’ بچوں کو سنایا کریں گی۔

٭٭٭