ذہنی ارتکاز کی اہمیت

مصنف : مولانا وحید الدین خان

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مارچ 2009

مہا بھارت میں ارجن کی بہت سی کہانیاں ہیں۔ اُن میں سے ایک کہانی یہ ہے کہ ارجن ایک راج کمار تھے۔ وہ اپنے چار بھائیوں کے ساتھ ایک گرو سے تیر اندازی کا فن سیکھ رہے تھے۔ کچھ دنوں کے بعد گرو نے چاہا کہ وہ اپنے شاگردوں کا امتحان لیں۔ انھوں نے مٹی کی ایک چڑیا بنائی۔ اِس چڑیا کو انھوں نے ایک درخت کے اوپر رکھ دیا۔ پھر انھوں نے ہر ایک سے کہا کہ چڑیا کی آنکھ پر نشانہ لگاؤ۔

گرو نے پہلے، دوسرے بھائیوں سے پوچھا کہ تم کو اوپر کیا چیز دکھائی دے رہی ہے۔ ہر ایک نے کئی چیزیں بتائیں۔ مثلاً درخت، پتے، شاخ، چڑیا، وغیرہ۔ گرو نے ان سب شاگردوں کو فیل کر دیا۔ اس کے بعد انھوں نے ارجن سے کہا کہ تم نشانہ لگاؤ۔ پھر انھوں نے ارجن سے پوچھا کہ تم کو اوپر کیا دکھائی دے رہا ہے۔ ارجن نے کہا کہ چڑیا کی آنکھ۔ ہر بار جب گرو نے سوال کیا تو انھوں نے یہی جواب دیا۔ اس کے بعد گرو نے ارجن کو امتحان میں پاس کر دیا اور کہا کہ مقصد کو پانے کے لیے، مقصد ہی پر سارا دھیان لگاناچاہیے۔

کسی مقصد میں کامیابی کے لیے یہ اصول بہت ضروری ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو ذہنی ارتکاز(concentration) کہا جاتا ہے، یعنی یہ صلاحیت کہ آدمی اپنی تمام توجہ اور کوشش کو ایک نشانے پر لگا سکے، وہ دوسری چیزوں پر سوچنا بند کر دے:

کسی مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ آدمی پوری یک سوئی کے ساتھ اپنے ذہن کو ایک نشانے پر لگا دے۔ اِس کے بغیر اس دنیا میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی، خواہ وہ دنیوی مقصد کا معاملہ ہو یا اخروی مقصد کا معاملہ۔ یہی وہ واحد قیمت ہے جوکسی مقصد کے حصول کے لیے درکار ہوتی ہے۔ جو آدمی اس قیمت کو دینے کے لیے تیار نہ ہو، اس کو مقصد کے حصول کی تمنا بھی نہیں کرنی چاہیے۔

ایک سنگین مغالطہ

لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے دنیوی معاملات میں خوب عقل لگاتے ہیں، زیادہ سے زیادہ سوچتے ہیں، ہر پہلو سے سمجھ کر منصوبہ بندی (planning) کرتے ہیں، لیکن دین کے معاملے میں ان کا طریقہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔ یہاں وہ سمجھتے ہیں کہ کسی حضرت کی دعا لے لو کسی درگاہ میں چلے جاؤ، کسی بزرگ کی زیارت کر لو، تسبیح کے دانے پر کچھ الفاظ پڑھ لو، کچھ رسمی اعمال (rituals) کو دہرا لو اور پھر تمام دینی معاملات خود بخود درست ہو جائیں گے۔ مگر یہ دو طرفہ طریقہ سر تا سر بے بنیاد ہے۔ اِس طریقے کا کوئی فائدہ کسی کو ملنے والا نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ آدمی جس طرح دنیا کے معاملات میں اپنی عقل لگاتا ہے، اُسی طرح اس کو دین کے معاملات میں بھی اپنی عقل لگانا ہو گا۔ دین کے معاملے میں بھی اس کو اپنے شعور کی پوری طاقت استعمال کرنا ہو گا۔ اِس کے بغیر نہ کوئی شخص حقیقی معنوں میں دین دار ہو سکتا ہے اور نہ وہ جنت کا مستحق بن سکتا ہے۔

دین دار بننے کا عمل پورے معنوں میں، ایک شعوری عمل ہے۔ ہر عورت اور مرد کے لیے لازم ہے کہ وہ شعوری سطح پر دین کو دریافت کرے۔ وہ دین داری کو شعوری دین داری بنائے، نہ کہ رسمی دین داری۔ وہ دین کو پورے معنوں میں، اپنے دل و دماغ کا حصہ بنائے۔ وہ اپنی دینی زندگی کو بھی اُسی طرح ایک باشعورزندگی بنائے جس طرح وہ اپنی دنیا کی زندگی کو ایک باشعور زندگی بنائے ہوئے ہے۔ اِس معاملے میں کسی بھی شخص کا کوئی استثنا نہیں۔

خدا نے انسان کو جو سب سے بڑی چیز دی ہے، وہ اس کا عقل و شعور ہے۔ جو لوگ عقل و شعور کی برتر سطح پر دین کو نہ پائیں اوردین کو اختیار نہ کریں، وہ خدا کے یہاں بے دین قرار پائیں گے، خواہ رسمی سطح پر بظاہر وہ دین دار کیوں نہ بنے ہوئے ہوں۔ دین داری ایک شعوری عمل ہے، نہ کہ صرف ایک رسمی عمل۔

بے اطمینانی کا سبب

ٹاٹا انڈسٹری کے چیئرمین مسٹر رتن ٹاٹا (72 سال) نے لمبی کوشش کے بعد ایک نئی چھوٹی کار بنائی ہے۔ اِس کار کا نام نانو (Nano) ہے۔ اِس کی قیمت صرف ایک لاکھ روپے ہے۔ اس کو دنیا کی سب سے سستی کار (cheapest car on earth) کہا جاتا ہے۔

نئی دہلی (پرگتی میدان) میں اِس کا ر کی نمائش کی گئی تو اس کو دیکھنے کے لیے بہت بڑی بھیڑ اکٹھا ہو گئی۔ مگر عجیب بات ہے کہ مسٹر رتن ٹاٹا نے بظاہر بے شمار نئے لوگوں کے لیے سستی کار کی شکل میں ایک پر مسرت تحفہ دیا، لیکن خود رتن ٹاٹا کو روحانی خوشی حاصل نہیں۔ ٹائمس آف انڈیا (11 جنوری2008) کی رپورٹ کے مطابق انھوں نے کہا کہ - میں اپنے آپ کو اپنی زندگی کے بہت زیادہ تنہائی کے دور میں پاتا ہوں:

I am in a very lonely phase of my life (p.1)

یہ کوئی انفرادی مثال نہیں۔ یہی اُن تمام لوگوں کی کہانی ہے جو اپنی ساری توانائی مادی چیزوں کے حصول میں لگا دیتے ہیں۔ جو اس طرح رہتے ہیں گویا کہ زندگی کا مقصد مادی ترقی کے سوا اور کچھ نہیں۔ ایسے لوگ جب اپنی عمر کے آخری حصے میں پہنچتے ہیں تو اُن کو محسوس ہوتا ہے کہ بظاہر مادی کامیابی حاصل کرنے کے باوجود اُن کو اندرونی خوشی حاصل نہیں۔ وہ اسی طرح جیتے ہیں، یہاں تک کہ مایوسی (despair) کی حالت میں مر جاتے ہیں۔

اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کی روح کے لیے سب سے زیادہ ربانی غذا کی ضرورت ہے۔ صرف مادی غذا انسان کی فطرت کو ایڈریس نہیں کرتی۔ بظاہر خوش خوراکی کے باوجود اس کی داخلی شخصیت، روحانی فاقہ (spiritual starvation) میں مبتلا رہتی ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ألا بذکر اللّٰہ تطمئن القلوب (الرعد: 28) یعنی سن لو کہ اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔