لعنتی

مصنف : خدیجہ مستور

سلسلہ : ادب

شمارہ : جولائی 2010

            رضوان میاں بڑی مستعدی سے ہر کام میں پیش پیش تھے۔ گھر میں اور کسی کو ہوش نہ تھا۔ کڑیل جوان لاش سامنے صحن میں رکھی ہوئی تھی۔ برآمدے میں عزیز دار عورتوں کا ہجوم تھا۔ بھابی جان پر بار بار غشی کے دور پڑ رہے تھے۔ بڑے بھائی اپنے بیٹے کی لاش کے پاس اس طرح بیٹھے تھے جیسے خود بھی مر چکے ہوں۔ دوپہر ہی کی بات ہے جب سعادت میاں ٹھیک ٹھاک گھر سے نکلے، کار میں بیٹھے اور اپنی دوست سے ملنے چل دیے۔ خیر سے کہیں پانچویں چھٹے مہینے تو آنا ہوتا۔ ملازمت جو ایسی تھی کہ ایک دن کی چھٹی میں بھی نقصان ہی نقصان ہوتا۔ راتوں رات اپنی لمبی سی سیکنڈ ہینڈ کار میں سفر کرتے اور صبح تڑکے تڑکے اماں باوا کا کلیجہ ٹھنڈا کر دیتے، دو تین بجے تک آنے جاننے والے عزیزوں سے ملنے نکل جاتے، پرانی یاری تھی۔ اپنے شہر آتے تو تڑپ اٹھتے۔ یاد آ ہی جاتی۔ دو تین گھنٹے ادھر بھی گزراتے اور پھر رات کا کھانا کھا کر سفر پر روانہ ہو جاتے۔ مگر اس بار واپسی نصیب میں نہ لکھی تھی۔ ان کی اماں رات کے کھانے کا اہتمام کرا رہی تھیں کہ رضوان میاں خون میں لت پت لاش لیے آ پہنچے، یہ سب کچھ ایسے ایکا ایکی ہوا کہ ماں باپ کے کلیجے شق ہو گئے۔ پلوٹھی کی اولاد اور وہ بھی ایسے کماؤ کہ سارے خاندان کی ناک اونچی کر دی۔ سارے عزیز انھیں اپنا داماد بنانے کے لیے دام بچھاتے پر اماں باوا کو کوئی رشتہ پسند ہی نہ آتا۔ ادھر لوگوں کا یہ حال کہ بس چلتا تو اپنی بیٹیوں کو شوکیس میں سجا کر سعادت میاں کے سامنے پیش کر دیتے۔ خیر یہ تو ماں باپ کی تمنائیں تھیں، ایک بار تو رضوان میاں کی بیٹی نے آپ ہی آپ سعادت میاں کے سامنے آ کر سستی سستی حرکتیں شروع کر دیں۔ رضوان میاں کو بھابی نے دیکھتے ہی تاڑ لیا۔ چوٹی سے پکڑ کر دو تھپڑ لگائے اور رضوان میاں کو بلا کر صاف صاف کہہ دیا کہ ذرا اپنی بیٹی کو سمجھاؤ کہ اس کی کیا حیثیت ہے۔ خبردار اب کبھی ادھر کا رخ نہ کرنا، ادھر کہیں بیروں خانساموں میں اپنی بیٹی کا دولہا تلاش کرو۔ رضوان میاں سر جھکائے سب کچھ سنتے رہے اور ان کی بیٹی پھسر پھسر روتی رہی۔ کتنی مشکل سے تو بیچاری کو یہاں آنے کے لیے ریشمیں جوڑا نصیب ہوا تھا۔ ‘‘پانچ چھ سات دن تک سارے محلے کے گھروں میں بھکارنوں کی طرح چکر کاٹتی رہی تھی، شادی میں جانا ہے، بس دو گھنٹے بعد واپس کر دوں گی’’۔ پرانے جوڑے پر آنسوؤں کے بے شمار دھبے پڑ گئے تھے۔اس سلسلے میں قصور تو رضوان میاں کا تھا۔ پچاسوں دفعہ اپنی بیوی اور بیٹی کے سامنے کہا تھا کہ ‘‘بڑے بھیا تو سعادت کے لیے اسی گھر کو پسند کرتے ہیں۔ مگر میں راضی نہیں، عزیز داروں میں شادی ٹھیک نہیں ہوتی۔ دلوں میں کھوٹ پڑ جاتا ہے۔ خدا وہ دن نہ لائے کہ بڑے بھیا کے دل میں میری طرف سے کھوٹ پڑے۔’’ بیوی تو ایسی باتیں سن کر چپ رہتی مگر بیٹی سے چپ نہ رہا گیا، اپنا دولہا دیکھنے نکل پڑی اور روتے روتے بے حال ہو گئی۔ رضوان میاں دیر تک سر جھکائے بیٹھے رہے اور پھر بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ساتھ لے کر چلے گئے۔ مارے حیرت کے بھابی کی آنکھیں کھلی رہ گئیں۔‘‘بھئی حد ہے بے حیائی کی۔’’

            ‘‘شاید رضوان صاحب کا ارادہ ہے کہ بیٹیوں کو پیشہ شروع کرا دیں۔’’سعادت میاں، رضوان میاں کو کبھی چچا نہ کہتے۔ اور آج وہی رضوان میاں ان کی لاش کو سڑک پر پڑے دیکھ کر چیخ پڑے تھے۔‘‘ہائے یہ تو میرا بھتیجا ہے۔ ارے میں زندہ بیٹھا ہوں کہ تجھے اس حال میں دیکھوں۔’’ رضوان میاں خون میں لت پت لاش سے لپٹ گئے تھے۔ ہجوم کا بھی دل بھر آیا۔

            آج سعادت میاں کو جانے کیا ہوا تھا کہ جب اپنی پیشہ ور دوست کے ہاں سے واپس آ رہے تھے تو ایسے مست ہوئے کہ سامنے سے آتے ہوئی اتنی بڑی بس بھی نظر نہ پڑی۔ جانے کب تک خاک و خون میں لتھڑے پڑے رہتے کہ رضوان میاں کا ادھر سے گزر ہو گیا۔ بھاگے بھاگے بڑے بھیا کے گھر گئے۔ لاش کو گھر لے جانے کا خود ہی انتظام کیا، پولیس سے خود ہی نمٹے۔ کفن وغیرہ کا بندوبست کیا اور اب اپنے بڑے بھیا کے پاس لگے کھڑے تھے۔ گھنٹہ بھر پولیس سے جھک جھک کر کے آئے تھے۔ کیا فائدہ کہ پوسٹ مارٹم ہوتا۔ ویسے ہی سارا جسم چیتھڑے اڑ گیا تھا۔

            رضوان میاں کے ان کارناموں پر خاندان کے تمام افراد ممنون نظر آتے تھے۔ ‘‘اگر رضوان میاں وقت پر نہ پہنچ گئے ہوتے تو جانے لاش کب تک سڑک پر پڑی رہتی۔’’ رضوان میاں ایسی باتیں سن سن کر اپنی جھکی ہوئی گردن آہستہ آہستہ اونچی کرتے جا رہے تھے۔ اس دن تو دو دن فاقے کی کمزوری میں بھی افاقہ محسوس ہو رہا تھا۔ وہ تو یہ بھی بھول گئے تھے کہ ان کی بیوی اور بچے بھوک سے نڈھال ہو رہے تھے اور وہ کام کی تلاش میں نکلے تھے۔ بڑے بھیا کے پاس کھڑے ہونے کا یہ پہلا موقع تھا۔ دل بلیوں اچھل رہا تھا۔

            ‘‘بڑے بھیا آپ ذرا صبر سے کام لیں۔’’ وہ بار بار بڑے بھیا پر جھک جھک کر کہہ رہے تھے اور وہ اسی طرح گم صم بیٹھے تھے جیسے کوئی سن ہی نہ رہے ہوں۔ ادھر بھابی پچھاڑیں کھا رہی تھیں۔‘‘ارے بھئی کوئی بھابی کو اچھی طرح سنبھالے۔’’ رضوان میاں نے کہا اور عورتوں کے ہجوم میں گھس پڑے۔‘‘خدا کے لیے بھابی جان اپنے کو سنبھالئے۔’’‘‘ارے رضوان! تم میرے بچے کو لائے تھے، ارے تم نے میرے بچے کو خاک پر سے اٹھایا تھا۔ اس وقت زندہ تھا؟ تم نے اسے زندہ دیکھا تھا؟ ارے میرے پاس آؤ تمھاری آنکھیں چوم لوں۔’’ بھابی تو جیسے پاگل ہو رہی تھیں لیکن رضوان میاں نے بالکل ہی ہاتھ پاؤں چھوڑ دیے۔ ٹک ٹک بھابی کا منہ تکنے لگے۔ جی چاہتا تھا کہ بھابی کے قدموں پر سر رکھ دیں۔ آخر تو آج انھوں نے اپنے دیور کو دیور سمجھا۔ ‘‘جب چوٹ لگتی ہے تو اپنے ہی یاد آتے ہیں۔ خدا جنت میں جگہ دے سعادت میاں کو جنھوں نے یہ عزت بخشی۔ ’’ آنکھوں میں آنسو آ گئے۔‘‘ہاں بھئی! خدا بھلا کرے رضوان میاں کا جنھوں نے سعادت میاں کو سینے سے لگا کر گھر پہنچایا، ہائے کیسی جوان موت ، ابھی تو سہرے کے پھول کھلنے تھے۔’’ چچی جان آنسو پونچھ رہی تھیں، رضوان میاں نے بڑے فخر سے ان کی طرف دیکھا’’ اللہ تیرا شکر ہے تو جسے چاہے عزت بخشے اور جسے چاہے گھوڑے سے اٹھا کر تخت پر بٹھا دے۔ تو نے ہی مجھے میرے عزیزوں سے ملا دیا۔’’ رضوان میاں بھی آنسو پونچھنے لگے۔‘‘ارے رضوان! میرے بچے نے میرے لیے کچھ کہا بھی تھا؟ اس نے ماں بدنصیب کو یاد بھی کیا تھا؟ ارے میرے مولا!’’ اف ! کیسے میٹھے بول۔ رضوان میاں کھو کر رہ گئے۔ بھابی کے بین گھنگھروں کی جھنکار معلوم ہو رہے تھے۔

            ساری زندگی میں تو کبھی ایسے بول نہ سنے تھے۔ ہر طرف در در پھٹ پھٹ رضوان میاں کے ابا کو کیا سوجھی کہ شادی کے پانچ سال بعد اپنے گھر کی جوان ملازمہ پر رال ٹپکا بیٹھے۔ اللہ والے آدمی تھے، یوں غلاظت اچھالنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ شرع میں کیا شرم۔ اعلانیہ نکاح کیا۔ پہلی بیوی اپنے بیٹے کو لے کر مائکے جانے پر تیار ہو گئیں کہ تم ہی اس گھر کی مالک ہو یہ تو تمھاری خدمت کرنے کے لیے کی ہے۔ جو ہونا تھا سو ہو لیا تھا۔ بڑی بیگم راضی ہو کر بیٹھ گئیں۔ بچے کے ساتھ جوانی یوں ہی اکارت جاتی۔ یہاں تو ٹھاٹ سے تخت پر بیٹھی رہتیں۔ ہاں چھوٹی بیگم کے دن نہ پلٹے۔ وہی باورچی خانہ اور پسینے سے چپپاتے کپڑے۔ اس پر بھی بڑی بیگم ہر وقت طعنوں سے کلیجہ چھلنی کیے رکھتیں۔ آخر تو اس بیچاری نے بھی نکاح کیا تھا۔ وہ بھی تو بیگم بنی تھی۔ ہر وقت کلیجہ پھکتا رہتا۔ رضوان میاں کو جنم دے کر پھر پلنگ سے اٹھنا نصیب نہ ہوا اور بڑی بیگم کے دل کا کانٹا نکل گیا۔ رضوان میاں بوڑھی خانسامن کی آغوش میں پھینک دیے گئے۔ وہ کھانا پکاتے وقت ان کو باورچی خانے کے فرش پر گبھا بچھا کر ڈال دیتی۔ آنکھوں میں دھواں لگتا تو قیہوں قیہوں رویا کرتے۔ خانسامن کبھی ٹھنڈے اور کبھی گرم دودھ کی بوتل منہ میں ٹھونس دیتی تو دم سادھ کی چسر چسر شروع کر دیتے، بوڑھی خانسامن ان کے رونے پر گھنٹوں بڑبڑاتی۔‘‘اللہ ماری جن کر چھوڑ گئی، گور میں کیڑے پڑیں چڑیل کے۔’’ دودھ پلاتے پلاتے ایک آدھ گھمکا بھی رسید کر دیتی۔ذرا رینگنا شروع کیا تو پانچ سال بڑے بھیا آتے جاتے سر پر چپتیں مارتے۔ خانسامن اور بڑی بیگم نہال ہو کر ہنستیں، رضوان میاں ذرا پیں پیں کر کے زمین سے مٹی کھرچنے لگتے۔ مٹی کھا کھا کر معدے کے مریض ہو گئے۔ خانسامن ہر وقت دھلاتے دھلاتے عاجز آ چکی تھی۔ بڑی بیگم کے سامنے فریاد کر کے ڈاکٹر سے دوا لے آتی جو دن میں دو تین مرتبہ منہ چیر کر پلا دی جاتی۔‘‘ارے ہاں اب زندہ رہے، آخر تو اپنے شوہر کی اولاد ہے، یا تو پیدا ہی نہ ہوا ہوتا کمبخت۔’’ جب ڈائریا بڑھتا تو بڑی بیگم ذرا فکر مند ہو جاتیں۔ ‘‘اور کچھ نہیں تو میرے بچے کی خدمت ہی کرے گا۔’’

            بڑے بھیا کبھی کبھی رضوان میاں سے کھیلنے بھی لگتے اور کبھی کبھی پیار بھی کر لیتے۔ بڑی بیگم مسکرانے لگتیں۔ خانسامن ہڑبڑا جاتی۔‘‘ارے میاں! تم اسے نہ چھوؤ ہاتھ گندے ہو جائیں گے۔’’ کھیلنے دو خانسامن، میرا بچہ اکیلا جو ہے۔ بڑا ہو کر خود ہی سمجھ جائے گا۔’’رضوان میاں تین چار کے ہوئے، تو خود بھی بڑے بھیا کے پیچھے پیچھے پھرنے لگے، وہ سکول چلے جاتے تو یہ اتنے بڑے گھر میں مارا مارا پھرا کرتے۔ چڑچڑا کر روتے تو بڑی بیگم تھپڑ دکھاتیں اور وہ سہم کر باورچی خانے میں پناہ لیتے۔ بڑے بھیا سکول سے آتے تو ان کا جی باغ باغ ہو جاتا۔چھ سات سال کے ہوئے تو بڑی بیگم نے انھیں بھی مفت کے پرائمری سکول میں داخل کرا دیا۔ آخر تو اپنے باپ کے بیٹے تھے۔ ایک بار بھی فیل نہ ہوئے۔ پرائمری سکول کی تعلیم ختم کر لی۔ بڑی بیگم کو یہ بات ذرا بھی اچھی نہ لگی کہ ان کا بیٹا تو چوتھی کلاس میں بھی فیل ہو گیا تھا۔‘‘بس اب آگے پڑھنے کی کیا ضرورت ہے، گھر کا کام کاج دیکھو، سودا سلف لانے کے لیے کوئی نوکر تھوڑا ہی رکھا جائے گا۔’’ بڑی بیگم نے تیوری چڑھا کر آگے پڑھانے سے انکار کر دیا۔ رضوان میاں کو پڑھنے کا ایسا شوق تھا کہ اس انکار پر اپنے اجاڑ کمرے میں گھنٹوں روتے رہے۔ یہ وہی کمرہ تھا جہاں کبھی چھوٹی بیگم رہا کرتیں۔ وہیں اب ان کا پلنگ پڑا تھا۔ رات اسی کمرے میں خانسامن بھی اپنی کھاٹ ڈال لیتی۔دوپہر جب ابا میاں کچہری سے واپس آئے تو وہ فریاد لے کر ان کے پاس گئے۔

            ‘‘اماں بیگم کہتی ہیں کہ اب آگے پڑھنے کی ضرورت نہیں، گھر کا کام سنبھالو’’۔ بڑے بھیا کی طرح پہلے وہ بھی امی کہتے تھے مگر جب ذرا بڑے ہوئے تو خانسامن نے ڈانٹ ڈانٹ کر اماں بیگم کہنا سکھایا۔‘‘ہوں! ہوں اوں’’ ابا میاں زور سے کھنکھارے۔‘‘ٹھیک ہی کہتی ہیں اماں بیگم، بیٹا کوئی گھر بھی تو دیکھے اب تم دس سال کے ہو رہے ہو، سمجھدار ہو۔’’ رضوان کے ابا میاں شاید اب اپنی بیگم کو مزید دکھ نہ دینا چاہتے تھے۔ پھر یہ کوئی شرع کا معاملہ بھی نہ ہو گا ان کی نظر میں۔رضوان میاں منہ لٹکائے واپس آ گئے۔ ان کی سمجھداری نے جواب دے دیا تھا۔ ابا میاں کی بات ان کے پلے نہ پڑی تھی۔ وہ اپنے بڑے بھیا کے پاس جا کر پھوٹ پڑے۔‘‘ابا میاں اور اماں کہتی ہیں کہ اب تم نہ پڑھو، گھر کا کام کرو۔’’‘‘کیوں، کیوں نہ پڑھو؟’’ بڑے بھیا تن تنا کر اماں کی طرف دیکھنے لگے اور وہ انھیں اپنے ساتھ لے کر کمرے میں چلی گئیں۔ تھوڑی دیر بعد جب بڑے بھیا کمرے سے نکلے، تو وہ بھی اماں اور ابا میاں کے ہم خیال تھے، مگر ان کے لہجے میں عجیب سی ہمدردی تھی۔

            دوسرے ہی دن رضوان میاں گھر کا سودا سلف لانے لگے، باقی وقت سڑکوں پر ادھر ادھر گھومتے یا پھر سکول کے پھاٹکوں کا چکر کاٹتے۔ ‘‘ہا ہا! اس بیچارے کو کوئی نہیں پڑھنے دیتا۔’’ ان کے ساتھ کے لڑکے مذاق اڑاتے۔ ‘‘ان کے بڑے بھیا تو ٹھاٹ دار سکول میں پڑھتے ہیں اور یہ گھر کے سودے لاتا ہے۔’’‘‘واہ! مجھے تو ابا میاں اور بڑے بھیا پڑھانا چاہتے تھے، مگر میں نے خود ہی کہا کہ میں تو اپنا گھر سنبھالوں گا۔ جناب گھر کا مالک بن گیا ہوں۔’’ رضوان میاں اپنے گھر والوں کے خلاف ایک بھی بات نہ سن سکتے تھے۔ خوب ڈینگیں ہانکتے گھر میں تو ہر وقت بولتی بند رہتی، بھیگی بلی بنے رہتے۔ ہنسے اور ٹوکے گئے، بات کی اور ڈانٹے گئے، ذرا زور سے قدم اٹھایا اور پکڑے گئے۔ اس پر غضب یہ کہ صبح سے شام تک عزیز داروں کا آنا جانا لگا رہتا۔ پانی اور چائے پلانے کا سارا کام انھیں کے سپرد تھا۔ اماں بیگم نے کشتی سجانے اور چائے پلانے کے سارے آداب سکھا دیے تھے۔ جب وہ بڑے ادب سے مہمان عورتوں کو سلام کرتے تو وہ گردن کے اشارے سے جواب دیتیں۔ پھر اماں بیگم سے سوال شروع ہو جاتے۔‘‘تم ہی نے یہ سب تمیز سکھائی ہو گی؟’’

            ‘‘ہاں اور نہیں کیا۔’’‘‘کچھ پڑھا لکھا بھی اس نے کہ نہیں؟’’‘‘لو! اول درجے کا کوڑھ مغز ہے، لاکھ چاہا کہ پڑھ لے مگر ہے کس ماں کا بیٹا۔’’ اماں بیگم ہمیشہ ماں کا بیٹا کہتیں۔ حشر کے روز مردوں کو ماں کے نام سے ہی پکارا جائے گا، مگر رضوان میاں کے لیے تو جیتے جی حشر کا سامان ہو گیا تھا۔ وہ ٹک ٹک اماں بیگم کا منہ تکنے لگتے۔ لو بھلا کب پڑھنے سے جی چرایا تھا میں نے، اور کب فیل ہوا تھا، جو آج کوڑھ مغز کہتی ہیں، آپ ہی نے تو کہا تھا کہ گھر دیکھو، وہ پریشان ہو کر سوچتے مگر سمجھ میں خاک نہ آتا کہ یہ سب کیا ہے۔

            زیادہ دن نہیں گزرے کہ وہ اس عمر میں آ گئے جہاں سب سمجھنے لگے تھے۔ اماں بیگم ان کی مونچھوں کے لمبے لمبے بے ترتیب بال دیکھ کر بوکھلانے لگی تھیں۔‘‘کیا مسٹنڈوں کی طرح گھر میں بیٹھے روٹیاں توڑتے رہتے ہو، پال کر اتنا بڑا کر دیا، اب اپنے ہاتھ سے کماؤ کھاؤ۔ کوئی زندگی بھر کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔’’

            وہ بے بسی سے سب کی طرف دیکھتے۔ ابا میاں منہ پھیر کر حقہ کی نلکی منہ میں ٹھونس لیتے۔ رضوان میاں کی طرف دیکھ کر جانے کیوں ان کی نظریں جھک جاتیں۔ ایک ذرا سی جدت کی خاطر اتنی بڑی بے کار چیز اس گھر میں دراتی پھر رہی تھی۔ جس کا کوئی بھی تو مصرف نہ تھا۔ بڑھاپے میں ایسی باتیں کتنی تکلیف دہ ہو جاتی ہیں۔ ہر طرف سے دھیان بٹا کرحقے سے لو لگاتے۔ پھر بھی اماں بیگم کو صبر نہ آتا۔ اب تو ان کے میاں کی کمائی نہ تھی۔ بڑے بھیا اچھے سے عہدے پر لگ گئے تھے وہ ایک ایک پیسہ دانتوں سے پکڑتیں۔‘‘بھئی اب اپنی اس اولاد سے کہو کہ کوئی کام دیکھے، کیا میرے بچے نے سب کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟’’‘‘بھئی گھر کے چار کام کر دیتا ہے، کیوں خواہ مخواہ ’’ ابا میاں کبھی کبھی حمایت میں بول اٹھتے۔‘‘دیکھو جی اب اگر تم اس مردود کی حمایت میں بولے تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔ سودے میں سے پیسے کاٹ کاٹ کر گل چھرے اڑاتا ہے۔ میں اپنے بیٹے کی کمائی حرام نہیں اٹھنے دوں گی۔’’ ابا میاں چپ چاپ حقہ گڑگڑانے لگتے۔ اور رضوان میاں سر جھکائے اپنے کمرے میں چلے جاتے۔ جھولا پلنگ پر لیٹ کر چھت تکا کرتے کبھی سودے سے دھیلا نہ کاٹا تھا۔ پھر بھی سارے خاندان میں چور مشہور ہو گئے تھے۔ اللہ میاں کیا میری پیدائش کے بغیر دنیا سونی رہ جاتی۔ وہ پہروں سوچتے اور انھیں اپنی ماں مرحومہ سے نفرت ہونے لگتی۔ اچھا ہوا جو مر گئیں، ایسی ہی عورتیں تو ہم جیسوں کی زندگی تباہ کرتی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید میں بھی اماں بیگم کی اولاد ہوتا۔ وہ بڑی معصومیت سے سوچنے لگتے۔ بڑے بھیا اپنے ساتھ پڑھاتے۔ ساتھ ایک کمرے میں رہتے۔ کتنے اچھے ہیں بڑے بھیا، انھوں نے تو کبھی اونچی آواز میں بات بھی نہیں کی۔ خیر گھروں میں عورتوں کی یہ نفرت چار دن کی ہوتی ہے، سب ٹھیک ہو جائے گا، وہ خود کو تسلی دیتے۔رضوان میاں جب گھر کی کٹ کٹ سے بالکل بے حال ہو جاتے تو صاف کپڑے پہن کر اپنے محلے میں نکل جاتے، نظریں جھکائے نپے تلے قدم اٹھاتے۔ سامنے جو بزرگ آتا اسے جھک کر آداب کرتے۔ وہ گھر اور باہر ہر وقت اس بات کا خیال رکھتے کہ کوئی ایسی حرکت نہ کریں جس سے واقعی خادمہ کے پیٹ کی اولاد معلوم ہوں۔‘‘میاں تم نے نہ پڑھ کر بہت برا کیا، دیکھو تمھارے بڑے بھیا اتنے بڑے عہدے پر بیٹھے ہیں، تم تو کبھی فیل بھی نہ ہوئے تھے۔ پھر آخر پڑھنا کیوں چھوڑ دیا؟’’ بزرگ اپنی کرید کرنے والی عادت سے نہ چوکتے۔‘‘کیا کروں جی! ذرا بڑا ہوا تو سر میں ہر وقت دھمک رہنے لگی، بس اس لیے پڑھنا چھوڑ دیا۔ ابا میاں اور اماں بیگم نے بہتیرے علاج کیے بڑا زور مارا کہ میں آگے پڑھ جاؤں مگر اس سر درد نے پیچھا نہ چھوڑا۔ خیر مجھے کیا پروا ہے۔ بڑے بھیا کہتے ہیں کہ اگر کچھ بھی سوچو تو میرا لہو پیو۔ وہ کماتے ہیں اور میں گھر سنبھالتا ہوں۔’’ رضوان میاں اس سنجیدگی سے کہتے کہ بزرگ خوش ہو جاتے۔ ہونہہ، کیسی کرید کرتے ہیں، جیسے میں ان کے سامنے اپنے گھر کی برائی کروں گا۔ چار دن میں یہی ہمدردی کرنے والے کہیں گے کہ ہے نا نوکرانی کے پیٹ کا، وہی عادتیں، ہر ایک شکایت کرتا ہے۔‘‘خوش رہو بیٹا، بہت شریف لڑکے ہو۔’’ بزرگ آگے بڑھ جاتے اور رضوان میاں اپنی تعریف پر پھولے نہ سماتے۔

            گھر پہنچتے پہنچتے یہ خوشی کافور ہو جاتی ، چپکے سے اپنے کمرے میں پناہ ڈھونڈنے چلے جاتے۔ کھانے کے وقت خانسامن کے پاس جا کر زمین پر اکڑوں بیٹھ جاتے اور وہ تامچینی کی پلیٹ میں کھانا نکال کر روٹیاں ہاتھ میں ٹکا دیتی۔ وہ جلدی جلدی بڑے بڑے نوالے نگلنے لگتے۔ پھر بھی اماں بیگم دیکھ ہی لیتیں۔ ‘‘مفت کا کھانے کو ملے تو پھر کیا ہے۔’’ رضوان میاں کے ہاتھ سے روٹی چھوٹ جاتی اور وہ آدھا پیٹ کھا کر ہی اٹھ جاتے۔آنے جانے والوں کے سامنے بھی ہر وقت یہی رونا تھا کہ ان کے بچے کی کمائی رضوان مسٹنڈا کھائے لیتا ہے۔ عورتیں ناکوں پر انگلیاں رکھ رکھ کر انھیں ملامت کرتیں اور مرد تو خیر سے ان سے بات ہی نہ کرتے۔ ان کے سلام کا جواب دینا بھی بے عزتی خیال کیا جاتا۔ بڑے بھیا بھی جس دن سے ملازم ہوئے تھے، وہ بھی بات نہ کرتے۔ بس ہوں ہاں کر کے ٹال جاتے۔ رضوان میاں کا جی پھڑکتا رہتا کوئی ان کی حیثیت ہی تسلیم کر لے۔ کوئی ان کو بھی گلے سے لگا لے، کوئی ان کو بھی اپنا کہے۔ ان کی ماں خانسامن تھی، باپ تو خانساماں نہ تھے۔ ‘‘اماں اللہ کرے تمھاری گور میں کیڑے پڑیں’’۔ رضوان میاں اپنی اماں کو کوس کر پھر خود ہی روتے۔

            ایک رات ابا میاں کو گھبراہٹ کا دورہ پڑا اور وہ دل کی حرکت بند ہو جانے سے مر گئے۔ گھر میں کہرام مچ گیا۔ رضوان میاں اپنے ابا کے پلنگ کی پٹی سے لگ کر اتنا روئے کہ بے ہوش ہو گئے۔ کسی نے ان کو ہوش میں لانے کی کوشش بھی نہ کی۔ سارے عزیز اماں بیگم اور بڑے بھیا کو سنبھالنے بیٹھے تھے۔ ذرا دیر بعد وہ خود ہی ہوش میں آ گئے۔جنازے کے ساتھ چلتے ہوئے لوگوں نے بڑے بھیا کی طرح ان کو بھی تھام رکھا تھا۔ بڑے بھیا منہ پر رومال رکھے زار و قطار روئے چلے جا رہے تھے، رضوان میاں کے یا تو آنسو ہی نہ رکتے تھے یا اب کوشش کے باوجود ایک آنسو بھی نہ نکال سکے۔ بڑے بھیا کے ساتھ بالکل انھی کی طرح لوگوں کے سہارے چلنے میں انھیں عجیب سا سکون محسوس ہو رہا تھا۔ابا میاں کو آخری منزل پہنچا کر جو اماں بیگم کے سامنے گئے تو جیسے بلبلا اٹھیں۔ ‘‘ارے منحوس باپ کو کھا گیا اب تو اس گھر سے منہ کالا کر جا’’۔ وہ کلیجہ پھاڑ کر روئیں۔ رضوان میاں چپکے سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔چالیسویں کے بعد ہی رضوان میاں کو محسوس ہونے لگا کہ اب وہ ایک گھڑی بھی اس گھر میں نہیں رہ سکتے۔ کیا فائدہ جو دھکے مار کر نکالے جائیں اور باہر کے لوگ بھی تماشا دیکھیں۔ وہ تو یہی سوچیں گے کہ نوکرانی کے پیٹ سے ہے نا، کوئی ایسی ہی حرکت کی ہو گی۔ رضوان میاں نے گھر سے چلے جانے کا فیصلہ کر لیا۔ دوپہر میں اپنا بستر باندھ کر بیٹھے تو سمجھ میں نہ آیا کہ کہاں جائیں، بس یوں ہی نکل کھڑے ہوئے۔ سامنے یاسین صاحب کی دکان پڑی تو وہیں بستر رکھ کر چپ چاپ بیٹھ گئے۔ یہ ان کے ابا کے دوست تھے اور ان کی لمبی چوڑی دکان کا بڑا شہرہ تھا۔ ‘‘کیوں خیر تو ہے؟’’ یاسین صاحب ان کے اترے ہوئے چہرے کو غور سے دیکھنے لگے۔‘‘چچا جان آج تو میں زبردستی گھر سے نکل آیا کہ خود بھی کچھ کماؤں کجاؤں، آخر کب تک نکموں کی طرح بیٹھا رہوں۔ اماں بیگم ناراض ہو گئیں۔ بھیا روتے رہے، مگر میں نہ مانا۔ اب سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کروں؟ آخر تو میرا بھی جی چاہتا ہے کہ اپنے گھر کی خدمت کروں۔’’‘‘مگر رضوان میاں تمھاری تعلیم کا معاملہ ٹیڑھا ہے۔ اچھی سی جگہ ملنا مشکل ہے۔’’ یاسین صاحب فکر مند ہو گئے۔‘‘چچا جان! میں ہر کام کر لوں گا۔ کام میں کیا بے عزتی ، کوئی برا فعل تو نہیں کروں گا۔’’‘‘تو پھر میاں یہ دکان ہی تمھاری ہے۔ دوسری جگہ جانے سے کیا فائدہ، اسی کو سنبھالو، تمھارے بھائی ابھی پڑھ رہے ہیں۔’’دوسرے دن سے رضوان میاں دکان پر کام کرنے لگے۔ گاہکوں کو بڑی تمیز سے کپڑے کے تھان اٹھا اٹھا کر دکھاتے اس کام میں انھیں عجیب سی بے عزتی محسوس ہوتی مگر کرتے کیا، آخر پیٹ بھرنا تھا۔ جب دکان سے فرصت ملتی، تو سامنے کرسی ڈال کر بیٹھ جاتے۔ دور سے گھر کے کوٹھے کا کمرہ نظر آتا تھا۔ اسے دیکھ دیکھ کر آہیں بھرا کرتے۔ کیا کہیں گے لوگ، خاندان میں سب بڑے بڑے عہدوں پر رہے، کسی نے دکانوں پر کام نہ کیا۔ اب تو انھیں موقع مل گیا کہنے کا۔ یہی کہیں گے جیسی روح ویسے فرشتے۔ اس خیال سے گھبرا کر وہ دکان کے اندرونی حصے میں جا بیٹھے۔بڑے بھیا اپنی سیکنڈ ہینڈ کار پر زن سے گزر جاتے، کبھی نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھتے۔ دوسرے عزیز بھی اس راستے آتے جاتے مگر کیا مجال جو گردن موڑ کر دکان کی طرف دیکھ لیں۔بڑے بھیا کے یوں گزر جانے پر یاسین صاحب کی نظریں سوالیہ ہو جاتیں۔‘‘سب مجھ پر ناراض ہیں کہ کام کیوں کیا، خدا کا دیا ہوا بہت کچھ تھا، خیر سب کو منا لوں گا۔’’ رضوان میاں سر جھکا لیتے۔تیسرے چوتھے دن رات کو ذرا دیر کے لیے گھر ہو آتے تو اب بڑے بھیا کی ہوں ہاں بھی بڑی پر تکلف ہو گئی تھی۔ اماں بیگم انھیں دیکھتے ہی منہ پھیر لیتیں۔ بس ایک خانسامن تھی جو خیریت پوچھ لیتی۔‘‘یاد آتے ہو رمضان میاں۔’’ وہ چپکے سے کہتی کہ کہیں بڑی بیگم نہ سن لیں۔ تھوڑے ہی دن گزرے تو بڑے بھیا کی شادی ہو گئی۔ بارات ان کے سامنے ہی سے نکلی۔ رضوان میاں نے دکان میں کھڑے کھڑے دیکھا کہ پھولوں سے سجی ہوئی کار میں بڑے بھیا سہرا باندھے بیٹھے ہیں۔ آنکھوں میں آنسو آ گئے، دل میں ارمان ہی رہ گیا کہ بڑے بھیا کے شہوالے بنتے۔ یاسین صاحب بارات دیکھ کر حیران رہ گئے۔‘‘ارے ہم لوگوں کو تو پوچھا تک نہیں!’’‘‘جی ! واہ میں نے رات گھر پر کہہ دیا تھا کہ بارات میں نہ جا سکوں گا۔ دکان کا حرج ہو گا۔’’ رضوان میاں بڑی بے بسی سے ہنسے۔ یاسین صاحب کتاب کے ورق الٹنے لگے۔ اس دن کے بعد انھوں نے گھر کے سلسلے میں کوئی بات نہ کی۔ ہاں رضوان میاں کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھنے لگے۔ ایک دن یاسین صاحب نے انھیں مشورہ دیا کہ اب شادی ہو جانی چاہیے۔ انھوں نے شرما کر سر جھکا لیا۔‘‘اماں بیگم اور بڑے بھیا سے پوچھوں گا۔’’ انھوں نے بڑی سعادت مندی سے کہا۔ ‘‘خیر وہ تو دیکھا جائے گا۔ میں نے بات پکی کر لی ہے۔ بڑا شریف گھرانا ہے ۔ بس بے چارے افلاس کے مارے ہوئے ہیں۔ کل چار بجے تیار رہو نکاح ہو جائے گا۔’’

            نہ وہ دولہا بنے، نہ کار پر بیٹھے، نہ بڑے بھیا کی طرح ان کی بارات نکلی، سارے ارمان بلبلا کر رہ گئے۔ یہاں تو یاسین صاحب اپنے ساتھ لے گئے اور چار آدمیوں کی موجودگی میں نکاح پڑھا دیا۔ رضوان میاں پورے وقت چپکے چپکے رومال سے آنسو پونچھتے رہے۔ پھر دولہن کو ڈولی میں بٹھا کر اپنے کمرے میں لے آئے۔

            پانچ چھ دن بعد بیوی نے ضد کی کہ اپنے گھر لے چلو۔ اگر وہ ناراض ہیں تو میں منالوں گی۔ رضوان میاں مجبور ہو کر اسے بھی بڑے بھیا کے گھر لے گئے۔ بیچاری نئی نویلی دلہن دیر تک کھڑی رہی۔ کسی نے بیٹھنے تک کو نہ کہا۔ بھابی ناخنوں میں پالش لگا رہی تھیں، اماں بیگم بیمار تھیں اور بڑی نقاہت سے لیٹی ہوئی تھیں۔ ‘‘یہ کون ہے؟’’ جانتے بوجھتے انھوں نے بن کر پوچھا۔‘‘آپ کی بہو ہے۔’’ رضوان میاں نے شاد ہو کر جواب دیا اور انھوں نے کروٹ بدل کر آنکھیں بند کر لیں۔ بھابی اٹھ کر کوٹھے کے کمرے میں چلی گئیں، جہاں سے بڑے بھیا کے گانے کی آواز آ رہی تھی، دلہن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ دلہن نے اس کے بعد پھر کبھی گھر جانے کے لیے نہ کہا۔ رضوان میاں اپنے بھیا وغیرہ کے لیے ہزاروں ارمان بھری باتیں کرتے رہتے مگر وہ چپ چاپ سنتی رہتی۔

            زمانہ کتنی جلدی کروٹیں بدلتا ہے۔ اماں بیگم کا انتقال ہو چکا تھا۔ رضوان میاں اب جوان بیٹیوں کے باپ تھے۔ بڑے بھیا کا اپنے برابر بیٹا تھا۔ یاسین صاحب کی موت کے بعد ان کے بیٹوں سے جانے کس نے لگائی بجھائی کی کہ انھوں نے رضوان میاں کو نکال باہر کیا۔ اس وقت سے کتنے دکھ جھیلے۔ دو دو دن کے فاقے کیے۔ ڈلیا تک دھوئی، مگر کبھی اپنے گھر والوں کے خلاف ایک لفظ نہ نکالا۔ کوئی اگر کچھ کہتا بھی تو بھڑک اٹھتے۔‘‘واہ بھئی، اللہ میاں نے اپنے بھی ہاتھ پاؤں دیے ہیں۔ کیوں نہ محنت کروں، کیا ساری زندگی بھیا اور دوسرے خاندان والوں کے سر بیٹھا رہوں۔’’لوگ الٹے قائل ہو کر ان کی شرافت کی داد دینے لگتے اور رضوان میاں اپنی ایک نس میں شریف خون دوڑتا محسوس کرتا۔ بڑے فخر سے سر اونچا کر کے، اس داد پر پھولے نہ سماتے۔ اور ہم دونوں بھائی ہیں کبھی تو مل ہی جائیں گے۔وہ بڑی معصومیت سے سوچتے۔ یہ سارا قصور تو میری نیچ ماں کا تھا۔ وہ کبھی بھی اپنی ماں کے لیے سوچ کر رنجیدہ نہ ہوتے، مر گئیں تو اچھا ہی ہوا۔اور آج جب بڑے بھیا اپنے جوان بیٹے کی موت پر ایک ذرا دیر کو رضوان میاں کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھے تھے تو انھیں محسوس ہوا تھا کہ بڑے بھیا ان کی محبت میں پگھلے جا رہے ہیں۔ بھابی ان کے بازوؤں کا سہارا لیے بیٹھی تھیں۔ وہی بھابی جو ان سے شدید نفرت کرتی تھیں۔ اگر کوئی بھولے سے کہہ بھی دیتا کہ رضوان میاں بھی تو تمھارا دیور ہے، بس فوراً ہی آگ بگولا ہو جاتیں۔ ‘‘نوج، خدا نہ کرے، ابا مرحوم سے گناہ ہو گیا تھا، اللہ انھیں معافی دے، وہ میرا دیور کیوں ہونے لگا۔ خاندان پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔’’صحن میں بنے ہوئے چولھے پر پانی کا بڑا سا پتیلہ چڑھا ہوا تھا۔ میت کو نہلانے کے لیے تختہ بچھا دیا گیا تھا۔‘‘ارے رضوان میاں سب عورتوں سے کہو کہ کمروں میں چلی جائیں۔ اب غسل دینا ہے۔’’ چھوٹے چچا جان نے پکار کر کہا۔ رضوان میاں، یعنی چھوٹے چچا جان بھی انھیں رضوان میاں، رضوان میاں کہہ رہے تھے۔ گھر میں تو وہ ہمیشہ رضوان یا رضوانو کہے جاتے۔ باہر ضرور رضوان میاں تھے۔ رضوان میاں کے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے۔ اس درد ناک ماحول میں وہ عجیب سا سکون اور مسرت محسوس کر رہے تھے۔ساری عورتیں بھرا مار کر کمروں میں گھس گئیں۔‘‘ارے میرا بیٹا دولہا بننے جا رہا ہے۔’’ بھابی بین کر رہی تھیں۔ ‘‘ہائے رضوان میاں یہ کیسی شادی ہے؟ میرے بچے کی دلہن کہاں ہے، ارے کوئی بتاؤ میں کیا کروں؟’’ بھابی روتے روتے بے ہوش ہوئی جا رہی تھیں۔رضوان میاں نے اپنی اہمیت محسوس کرتے ہوئے ان کے منہ پر پانی کے چھینٹے دیے اور انھیں عورتوں کے سپرد کر کے خود صحن میں چلے گئے۔ کام کرتے ہوئے وہ بار بار سوچ رہے تھے کہ اس وقت ان کی بیوی اور لڑکیوں کو یہاں ہونا چاہیے تھا۔ کہیں بھابی کو شکایت نہ ہو۔ خیر میں معذرت کر لوں گا کہ جا کر لانے کا وقت ہی نہ ملا۔ ان کے پاس تو صاف ستھرے کپڑے بھی نہیں۔ خواہ مخواہ سب کی نظریں اٹھیں گی۔ ساری عزت خاک میں مل جائے گی۔لاش کو کفنا کر آخری دیدار کے لیے منہ کھول دیا گیا۔ روتی ہوئی عورتیں، میت کے گرد جمع ہو گئیں۔ رضوان میاں بھابی کو سہارا دیے کھڑے تھے اور وہ تھیں کہ پچھاڑیں کھا رہی تھیں۔ دیکھتے دیکھتے ان کے دانت بھینچ گئے اور آنکھیں چڑھ گئیں۔ میت جلدی سے باہر لے گئے اور رضوان میاں بھابی کو پلنگ پر لٹا کر پانی کے چھینٹے مارنے لگے۔‘‘رضوان میاں! تم گھر ہی رہو جانے تمھاری بھابی کی کیا حالت ہو۔ کسی مرد کا رہنا ضروری ہے۔’’ ماموں جان نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا اور رضوان میاں بھابی کے کولہے سے لگ کر بیٹھ گئے۔ وہ جب ہوش میں آتیں پچھاڑیں کھانے لگتیں، رضوان میاں انھیں سمجھانے اور سنبھالنے میں کوئی کسر نہ چھوڑ رہے تھے۔ ویسے سچی بات یہ تھی کہ رضوان کا جی چاہتا کہ بھابی روتی رہیں۔ ساری زندگی روتی رہیں، اور وہ ان کے پاس بیٹھے انھیں سمجھاتے رہیں، کتنی مدت کے بعد وہ اس گھر میں اپنوں کی طرح بیٹھے تھے۔ وہ جس گھر کے لیے مدتوں ترس رہے تھے، آج یہاں سب ان سے اچھی طرح بولے تھے، سب ان سے کام کو کہہ رہے تھے۔ آخر تو اپنے اپنے ہی ہوتے ہیں، اللہ تیرا شکر ہے۔ موت کے گھر میں انھیں بارات اتری ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔

            شام کے جھٹپٹے میں سارے مرد آنسو پونچھتے واپس آ گئے۔ رضوان میاں دروازے پر جا کھڑے ہوئے۔ چچا جان منہ جھوٹا کرانے کے لیے کڑوی روٹی کا سامان اٹھائے تھے۔ بڑے بھیا کو لوگ اب تک تھامے ہوئے تھے۔ وہ لڑکھڑاتے ہوئے ڈیوڑھی میں داخل ہوئے۔

            ‘‘میں اپنے بچے کو جنگل میں چھوڑ کر خود واپس آ گیا۔’’ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ چکا تھا۔ بڑے بھیا پہلی دفعہ دھاڑ کر روئے۔ رضوان میاں نے انھیں تھامنا چاہا تو ان کے سینے سے لپٹ کر اور بھی زور سے رونے لگے، سارے عزیزوں اور محلے والوں کے سامنے آج وہ اپنے بڑے بھیا سے گلے مل رہے تھے۔ ان کا دل خوشی سے دھڑک رہا تھا۔ ساری زندگی کی تمنا آج پوری ہو رہی تھی۔ وہ بالکل ہی بھول گئے کہ اس گھر میں موت بھی ہوئی ہے۔ سعادت میاں تو سچ مچ دولہا بنے ہیں۔‘‘اللہ تیرا شکر ہے کہ آج دونوں بھائی گلے ملے، خوش رہو سعادت۔’’وہ سب کی طرف دیکھ کر بڑے فخر سے مسکرائے، مگر پھر ایک دم ہونٹ بھینچ لیے، ارے یہ تو موت کا گھر ہے۔ انھوں نے نظریں جھکا لیں۔‘‘دفع ہو لعنتی، چھوٹے چچا جان بڑے کرب سے چیخے۔ ہے کس ماں کی اولاد، موت پر گلے مل مل کر خوش ہو رہا ہے۔’’ انھوں نے گھبرا کر سب کی طرف دیکھا۔سب کی آنکھوں میں نفرت کے شعلے لپک رہے تھے۔ بڑے بھیا لڑکھڑاتے ہوئے اندر جا چکے تھے۔ وہ جلدی سے ڈیوڑھی سے نکلے اور سب کے بیچ سے ہوتے ہوئے سڑک پر آ گئے۔ ان کا سر جھکا ہوا تھا اور بھوک کی کمزوری قدم پکڑ رہی تھی۔‘‘ارے ابھی سے چل دیے رضوان میاں؟’’ تعزیت کے لیے جاتے ہوئے حکیم صاحب نے انھیں راستے میں ٹوک دیا۔‘‘جی، بڑے بھیا تو بہت روک رہے تھے کہ مت جاؤ، مگر کیا کرتا۔ صبح کا نکلا ہوں، لڑکی بیمار ہے۔ خدا صبر دے بڑے بھیا کو’’ وہ آگے بڑھ گئے۔