عاملوں کا فراڈ

مصنف : اسحاق گورا

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : اکتوبر 2011

            پوری دنیا کو چلانے والے ،بادشاہوں کے بادشاہ اللہ تبارک و تعالی نے انسانوں کی ہر پریشانی کو دور کرنے کے لئے ایک ایسا لا ثانی علاج دیا ہے ،جس کو صحیح استعمال کرنے پر انسان اپنی تمام پریشانیوں کو حل کر سکتے ہیں۔وہ لا ثانی علاج قرآن کریم ہے اوراسی میں تمام پریشانیوں کا حل ہے۔ اللہ تبارک و تعالی نے خود فرما دیا ہے ہم نے قرآن میں شفااتاری ہے اور رحمت ہے مومنوں کے لیے۔جس طریقے سے کوئی انجینئر مشین بناتا ہے ، اس کے بعد اس مشین کو چلانے کے لئے اس کی کتاب لکھ دیتا ہے کہ کون سا‘ نٹ ’کون سا‘ بولٹ’ کس جگہ لگنا ہے اور کس‘ پرزے’ کے فالٹ سے کس پرزے میں خرابی آتی ہے، مشین کیوں بند ہوتی ہے اور اس کو کس طرح استعمال کرناہے،وہ یہ سب باتیں اس کتاب میں لکھ دیتا ہے۔اسی طرح اللہ تبارک و تعالی نے زندگی گزارنے کے لئے قرآن شریف دیا ہے۔اگر کہیں فالٹ آ جائے تو قرآن میں دیکھ کر اس پریشانی کے فالٹ کو دور کیا جا سکتا ہے۔

             سید ذیشان ایک تعلیم یافتہ شخص ہیں ان کی اہلیہ سکینہ اچانک عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگی ،کھانا کھانے کے بعد وہ ہنسنے لگتی پھر رونے لگتی اور پھر بے ہوش ہوجاتی۔ذیشان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا،انہوں نے فیملی ڈاکٹر کو بلا کر سکینہ کا چیک اپ کرایا۔لیکن ڈاکٹر کو کوئی بیماری نظر نہیں آئی۔اس نے صرف نیند کی دواا و رملٹی و ٹامن ٹانک لکھ دیا۔ اس کے باوجود بھی سکینہ کا اسی طرح ہنسنا ،رونا، جاری رہا تو ذیشان نے کسی بڑے ڈاکٹر سے مشورہ کیا۔ڈاکٹر نے سکینہ کی ای سی جی کرائی لیکن اس کی رپورٹ بھی نارمل آئی۔ڈاکٹروں کو سکینہ کا مرض سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ذیشان اور خاندان کے دیگر افراد بہت پریشان تھے۔چار پانچ روز ڈاکٹروں،حکیموں اور ماہرین نفسیات کے چکر کاٹتے کاٹتے ذیشان کی پریشانی بڑھ گئی۔ذیشان کو گھر کی عورتوں نے مشورہ دیا کہ سکینہ کو کسی عامل کو دکھانا چاہیے لگتا ہے اس پر کسی بھوت کا اثر ہو گیا ہے۔حا لانکہ ذیشان کو عاملوں پر قطعی اعتبار نہیں تھا لیکن سکینہ کی حالت اتنی خراب تھی کہ وہ مجبوراََ اسے ایک عامل کے پاس لئے گئے۔اس عامل نے کچھ پڑھتے ہوئے سکینہ کی آنکھوں میں دیکھا اور ذیشان کی والدہ کو بتایا کہ تمہاری بہو پر بڑا زبر دست اثر ہو گیا ہے۔ اس پر کئی جن سوار ہیں اور عامل نے کچھ پڑھتے ہوئے سکینہ کے بال پکڑ لئے اور اس کے منہ پر کئی طمانچے مارتے ہوئے چلایا‘‘نکل باہر ورنہ جلا کر راکھ کردوں گا ’’بے چاری سکینہ پہلے ہی بیمار تھی اور اس عامل کے طمانچے کھا کر وہ بے ہوش ہوگئی۔عامل نے ایک بوتل میں دم کیا ہوا پانی دیا اور کچھ لکھ کر سکینہ کے گلے میں ڈالنے کو اور اس کام کے ہزارروپے لیے۔گھر آ کر بھی سکینہ کی وہی حالت رہی، ذرہ برابر بھی آرام نہیں ہوا۔ذیشان نے عامل کو فون کیا تو ان کے کسی شاگرد نے بتایا کہ استاذ صاحب آپکی زوجہ کے علاج کے لئے ہی بند کمرے میں کوئی عمل کر رہے ہیں۔وہ صبح تک ٹھیک ہو جائیں گی۔ذیشان اور اس کے گھر والے بے حد پریشان تھے۔صبح ناشتے کے بعد سکینہ نے قہقہے لگانے شروع کردیے۔بڑی مشکل سے ذیشان اور اس کے گھر والوں نے سکینہ کو سنبھالا اور دوبارہ اسی عامل کے گھر لئے گئے۔انہوں نے دوبارہ اپنی سرخ آنکھوں کو سکینہ کے چہرے پر گاڑ کر چلانا شروع کر دیا۔‘‘گستاخ اب بھی باہر نہیں آئے گا۔ آخری وارننگ ہے ورنہ تجھے جلا دوں گا۔’’یہ کہتے ہوئے وہ کچھ بڑ بڑانے لگا اور دوبارہ سکینہ کی پٹائی شروع ہوگئی۔ذیشان سے یہ نہ دیکھا گیا اور انہوں نے عامل کا ہاتھ پکڑ لیا اور سکینہ کو گھر لے آئے۔ذیشان کی والدہ اور بہنوں نے انہیں بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ پیر صاحب بہت پہنچی ہوئی ہستی ہیں تم کیوں سکینہ کو لے آئے۔سکینہ کے ساتھ اب ذیشان کی بھی حالت خراب ہو رہی تھی انہوں نے دفتر سے چھٹی لے لی اور ان کے ایک دوست جو جنتر منتر جانتے تھے ان سے جنات کے اثرات کے بارے میں پوچھا۔اس دوست نے جناتی اثرات کی تصدیق کی اور انہوں نے راولپنڈی میں ایک عامل کا پتہ بتایا جو کئی سالوں سے جن،بھوتوں کے اثر میں آئے ہوئے لوگوں کا علاج کر رہے تھے۔ذیشان کے دوست نے انہیں فون کر کے وقت متعین کر دیا اور ذیشان سکینہ کو لیکر وہاں پہنچے۔اس عامل نے سکینہ کو ایک کاغذپورے جسم پر ملنے کو دیااور اسے ایک مٹی کی ہنڈیا میں ڈال دیا۔ وہ ہنڈیا سکینہ کی ناک سے لگا کر سر پر چادر ڈھانک دی اور سکینہ کے ناخنوں پر ایک شیشی میں سے تیل جیسی شے نکال کر مل دی۔ انہوں نے بتایا کہ میں کچھ پڑھوں گا اور تمہاری ناک کے اندر سے کوئی چیز نکلتی ہوئی محسوس ہو گی اور فوراََ اس ہنڈیا میں آگ جلنے لگے گی لیکن تم گھبرانا نہیں۔سکینہ کے ہاتھ میں ہنڈیا تھما کر اور اسے ناک سے لگا کر چادر ڈھانک دی گئی ،عامل صاحب عمل پڑھنے لگے۔ دو ،تین منٹ بعد ہنڈیا میں سے دھواں نکلنے لگا۔ وہاں موجود لوگ یہ عجوبہ دیکھ کرحیرت زدہ رہ گئے۔اسی روز سے سکینہ کی طبیعت ٹھیک ہونے لگی اور عامل صاحب نے بتایا کہ لڑکی پر ایک جن کا نہیں 8جنوں کا سایا ہے اور ہر جمعرات کو ایک ہنڈیاجلانا پڑے گی۔دو جمعرات تک ذیشان سکینہ کے ساتھ گیا لیکن تیسری جمعرات کو سکینہ کو اکیلے ہی بھیج دیا۔عامل صاحب ایک کاغذدیا کرتے تھے جسے جسم پر مل کر ہنڈیا میں ڈالا جاتا تھا۔جس روز سکینہ اکیلی گئی اتفاق سے دیگر مریض عامل کے پاس سے جا چکے تھے اور عامل اپنے چیلوں کے ساتھ اکیلاتھا۔سکینہ کو اکیلا دیکھ کر وہ بولا آج جس جن کو جلانا ہے وہ سب سے طاقتور ہے اس لئے یہ کاغذ میں تمہارے جسم پر ملوں گا۔سکینہ نے بے ساختہ کہا کہ حضرت! آپ تو غیر محرم ہیں ،آپ میراجسم کیسے چھو سکتے ہیں ،یہ تو گناہ عظیم ہے۔عامل نے سکینہ کو سمجھایا کہ چیک اپ کے لئے ڈاکٹر بھی تو جسم کو چھوتے ہیں اس لئے ہمیں اس کی رعایت ہے۔سکینہ کو بات سمجھ میں آگئی۔تان نے اپنے کمرے کا دروازہ باہر سے بند کر دیا اور وہ کاغذ ہاتھ میں لیکر سکینہ کے جسم پر پھیر نے لگا۔تبھی سکینہ کو اس کی آنکھوں میں حیوانیت اور نیت میں شیطانیت نظر آئی تو اس نے عامل کا ہاتھ پکڑ کر اپنے جسم سے ہٹانا چاہا لیکن وہ دھوکہ باز پاکھنڈی واقعی شیطان بن چکا تھا اور اس نے سکینہ کے ساتھ زور زبردستی کرنے کی کوشش کی۔سکینہ بہادر لڑکی تھی اس نے عامل کے ایک لات رسید کی اور دروازے کی جانب دوڑی ساتھ ہی اس نے دھمکی دی کہ اگر مجھ کو ہاتھ لگایا تو شو رمچادوں گی۔اس نے اتنی زور سے دروازہ پیٹا کہ عامل اور اس کے چیلے بھی گھبرا گئے سکینہ نے فوراََ دروازہ کھولا اور باہر آکر اپنے موبائل سے پولس کو فون کیا۔چونکہ ذیشان ایک بڑے نیوز چینل کے چیف رپورٹر تھے ان کا نام سن کر پولس فوراََ حرکت میں آگئی اور عامل کے بھیس میں اس شیطان کو گرفتار کر لیا۔اس کی گرفتاری کی خبر اخبار میں شائع ہوئی تو ایک لڑکی پولس کے پاس پہنچی اور اس نے بھی اس شیطان کے ہاتھوں اپنی آبروریزی کی شکایت درج کرائی۔یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آج کل جاہل تو کیا تعلیم یافتہ لوگ بھی بیماریوں اور پریشانیوں سے عاجز ہو کر نام نہاد عاملوں کی مکاری اور شیطانی کا شکار بن جاتے ہیں۔جبکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی تمام پریشانیوں کا حل قرآن کریم میں رکھ دیا ہے۔ انسان خود اپنا علاج کر سکتا ہے۔اس میں نہ کسی عامل کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ کسی اجازت کی ۔ اجازت پہلے ہی پِیروں کے پیر جنا ب سید المرسلین ﷺ کی طرف سے مل چکی ہے ان کی اجازت کے بعد کسی اور کی اجازت چاہنا یقینا ایک گستاخی ہے جس کی روز قیامت پوچھ ہو گی۔