محل یا سرائے؟

مصنف : محمد صدیق بخاری

سلسلہ : آواز دوست

شمارہ : مارچ 2011

 

کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل
    اللہ بخشے ،والد صاحب مرحوم یہ کہانی اکثر سنایا کرتے تھے ۔ اس کی تاریخی سند تو معلوم نہیں کیا ہے لیکن اس میں موجود نصیحت البتہ قابل غور ہے ۔فرمایا کرتے کہ ابراہیم بن ادھم اپنے محل میں دربار لگائے بیٹھے تھے کہ دربان نے اطلاع دی کہ ایک فقیر آیا ہے اور پوچھتا ہے کہ اس سرائے میں کوئی کمرہ خالی ہے ؟ ابراہیم نے سوچا دلچسپ آدمی معلوم ہوتا ہے ۔ کہا ،کہ اسے اندر بلا لو۔ فقیر آیا تو اُس سے پوچھا کہ تم کیا کہہ رہے تھے ۔ اس نے کہا ،بابا ، مسافر ہو ں ، رات ٹھہرنا ہے ، اس سرائے میں ایک کمرہ چاہتا ہوں۔ ابراہیم ہنس دیے اور کہا بابا تمہیں معلوم نہیں یہ سرائے نہیں محل ہے۔ فقیر نے کہا یہ بتاؤ کہ تم سے پہلے اس محل میں کون رہتا تھا ۔ ابراہیم نے کہا میرا باپ ۔ کہا اس سے پہلے ، کہا ، میر ا دادا، کہا اس سے پہلے کہا ، میرا پڑدادا۔۔۔۔۔ فقیر نے کہا تمہارے بعد کون رہے گا ، کہا کہ میرا بیٹا ۔ اس کے بعد؟ کہا ، کہ میرا پوتااور اس کے بعد؟کہا کہ پڑپوتا ۔۔۔۔۔۔فقیر ہنس دیا اور کہا ،بابا، اور سرائے کسے کہتے ہیں؟ سرائے عارضی قیام گا ہ ہوتی ہے ۔ تمہارا محل بھی تو ایسے ہی ہے ۔ کس نے یہاں مستقل قیام کیا ہے ؟ محل کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ ہے تو اصل میں سرائے ہی۔ والد صاحب فرمایا کرتے کہ ابراہیم کو بات سمجھ آ گئی ۔ بادشاہت ترک کی اور صوفی بن گئے اور دنیا کو سرائے سمجھ کر رہنے لگے ۔
    انسانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ دنیا کی اس سرائے کو محل سمجھ کر رہتے ہیں اور اس محل میں ہمیشہ رہنے کے اسباب اکٹھے کر تے رہتے ہیں۔ اک پل کی خبر نہ رکھنے والے سو برس کا سامان کرتے ہیں اور جب سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جانا پڑتا ہے تو حسرتوں کا بوجھ لیے چل پڑتے ہیں۔ اس معاملے میں انسان اتنا غافل ہے کہ وہ اپنے ارد گرد ہر آن برپارہنے والی یاددہانی پر کان دھرنے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہوتا۔ 
     ہر انسا ن کے ماحول میں اس حقیقت کی یا د دہانی کے لیے بے شمار اسباب ، آثار ، نشانیاں اور کہانیاں رکھ دی گئی ہیں۔ہر گھر سے اٹھنے والا جنازہ یہی اعلان کرتا ہے حتی کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ بھی یہی کہتاہوا آتا ہے کہ میں جانے کے لیے آیا ہوں۔خود ہم نے اپنی زندگی میں دیکھا کہ جس مکان میں ہمارے والدرہاکرتے تھے ، اب اس میں ا ن کے بچے رہنے لگے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ بھی عازم سفر ہو جائیں گے تو ان کے بچے رہنے لگ جائیں گے ۔ جس گھر میں ہمارے نانا نانی رہا کرتے تھے ۔ وہاں ان کے بعد ہمارے ماموں رہنے لگے ۔ وہ کہیں اور چل پڑے تو ہمارے بھائی رہنے لگے اور اب ان کے بھی بچے ۔۔۔جس گھر پہ ہمارے نام کی تختی لٹکی ہے وہاں تھوڑی ہی دیر میں کسی اور کے نام کی تختی لٹکا چاہتی ہے اور پھر کسی اور کی اور پھر۔۔۔ اور یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہے گا اور خود کو اہم سمجھنے والامیرے جیسا بیوقوف ایسے بھلایا جائے گا کہ گویا نسیا منسیاہو یا شیئا مذکورا بھی نہ ہو ۔ اسی طرح ہم جس ادارے میں کام کر رہے ہیں وہاں پچھلے پانچ سالوں میں اتنے چہرے تبدیل ہو چکے ہیں کہ جن کا نمبر شمار بھی یاد نہیں اور ان میں وہ بھی تھے کہ جو سمجھتے تھے کہ ان کے بغیر گویا سب کچھ تلپٹ ہو جائے گا مگر سب کا سب وہیں کا وہیں ہے ایک ہے تو، وہ انسان نہیں ہے جو اس غلط فہمی کا شکار تھا ۔اس کائنات میں مادی چیزوں اور انسان کے اپنے ہاتھ سے بنی اشیا کی تو کوئی مدت ہوتی ہے مگر خود انسان کی کوئی مدت نہیں ہوتی ۔ 
    اس دنیا میں رہنے کا کیا انداز ہو نا چاہیے اور آخرت کا کس قد ر استحضار ہو نا چاہیے ،یہ اتنا اہم ہے کہ اس کے لیے اللہ نے باقاعدہ انبیا اور رسل کا ایک لمبا سلسلہ شروع کیا ۔ اور آسمانی کتابوں کی صورت میں باقاعدہ انتظام کیا کہ انسا ن اس امر کے بارے میں ہر دم آگاہ رہے ۔ اور پھر یہیں پر بس نہیں کی بلکہ انسان کے ماحول میں میں باربار یاد دہانی کے لیے بہت سی مثالیں اور واقعات رکھ دیے ،کچھ آپ بیتی کی صورت اور کچھ جگ بیتی کی صورت۔ شاید یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مظاہر فطرت ، آثار قدرت ، احوال ِعالم ، ماضی ، حال اور مستقبل میں خالق کائنات کے وجود کی نشانیوں کے بعد سب سے زیادہ جو نشانیاں پائی جاتی ہیں وہ اسی امر کی ہیں کہ آخرت اصل ہے ، یہ دنیا فانی ہے اور ہر ہر انسان نے بہت جلد یہاں سے چلے جانا ہے بلکہ ہر آنے والا اصل میں جانے کے لیے ہی آتا ہے ۔ اور جاتا بھی ایسے ہے کہ کوئی اس کو روک بھی نہیں سکتا ۔ اس صورت حال میں کیا یہ بہتر نہیں کہ پھراس جانے کی تیاری ہر آن موجود رہے اور یہ حقیقت کبھی نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے پائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو دنیا کتنی امن اور سکون میں آجائے ۔ کیونکہ لڑائی تو اپنی چیز کے لیے ہوتی ہے اور ہمیشہ رہنے کے لیے ہوتی ہے ۔ جب نہ چیز اپنی ہے اور نہ ہمیشہ رہنے والی ہے تو اس کے لیے لڑائی کیسی؟ 
    یا د رکھیے اس دنیا میں پائدار امن قائم کرنے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ آخرت کے تصور کو انسانوں میں راسخ کرنے کی اسی طرح سعی کی جائے جس طرح اس دنیا کی تعمیر و ترقی کے لیے کوشش کی جاتی ہے ۔