غزل

مصنف : وقار احمد وقار

سلسلہ : غزل

شمارہ : فروری 2011

 

حقیقتوں کا شناسا دکھائی دیتا ہے
جو بھیڑ میں بھی اکیلا دکھائی ہے
 
جو اپنے درد کا درماں نہ کر سکا اب تک
تمہیں وہ شخص مسیحا دکھائی دیتا ہے
 
ادا ہے کون سی اُس بے وفا ستم گر کی
جو غیر ہو کر بھی اپنا دکھائی دیتا ہے
 
جواب اس کا ملا ہم کو اس مقولے میں
جو اچھے ہیں اُنہیں اچھا دکھائی دیتا ہے
 
خزاں کی آخری ہچکی ہے یا نویدِ بہار
‘‘شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے’’
 
وہ آ گئے ہیں ، وہ بیٹھے ہیں ، مسکراتے ہیں
شب فراق میں کیا کیا دکھائی دیتا ہے
 
شب وصال کے ہوتے ہیں مختصر لمحے
ہنسا ہے چاند بس اتنا دکھائی دیتا ہے
 
چراغِ بزم ہیں کچھ لوگ ان کی قدر کرو
کہ ان کے بعد اندھیرا دکھائی دیتا ہے
 
کرشمہ یہ بھی ہمارے ہی ذوق کا ہے وقار
جو رنگ و بُو کا تماشا دکھائی دیتا ہے