خوشی کے لمحات میں رہا احساس غم مجھ کو

مصنف : اقرا درانی

سلسلہ : یادِ رفتگاں

شمارہ : اکتوبر 2012

            ضروری نہیں کہ شوخ و چنچل ، شرارتی اور درد و غم سے ماورا دکھائی دینے والے چہروں اور مسکراتے لبوں کی حقیقت بھی یہی ہو۔ ایسے انسانوں کا دکھ بہت گہرا ہوتا ہے جسے بعض اوقات ان کے بہت قریبی ساتھی بھی نہیں سمجھ پاتے کہ

 میری روح کی حقیقت میرے آنسوؤں سے پوچھو

میرا مجلسی تبسم میرا ترجماں نہیں ہے

            آن کی آن میں ایک اور سال اور پھر رمضان المبارک آن پہنچا۔ وقت کیسے بیتا کچھ پتا ہی نہیں چلا۔ وقت جیسے پنکھ لگا کر اڑتا ہی چلا جا رہا ہے۔ آج خیال گزرا کہ عید پر کیسے تیار ہوا جائے ؟ پھر اگلے ہی لمحے خیال آیا کہ تیار ہوا ہوا بھی جائے تو کس کے لیے ؟

            خیال آیا کہ اِس سال تو عید پر ایک نہیں دو لوگوں کی کمی شدت سے محسوس ہو گی، اس سوچ سے آنکھیں ایک بار پھر اشک بار ہو گئیں۔ پچھلے سال تک تو صرف ‘‘بابا’’ کی کمی محسوس ہوتی تھی ۔ ہر عید کے موقع پر گمان ہوتا تھا کہ شاید اِس بار خوشی کے موقع پر وہ آجائیں ، شاید …… مگر آنکھیں ہمیشہ راہ ہی تکتی رہ جاتیں اور ہر عید دل و دماغ کوپھر سے سوزِ فراق میں مبتلا کر جاتی۔

آنکھیں ہیں کہ خالی نہیں رہ پاتیں لہو سے
اور زخمِ جدائی ایسا ہے کہ بھر بھی نہیں پاتا

            ہر رات سوچتے ہوئے اس امید پر آنکھیں بند ہوتی ہیں کہ شاید…… مگر اسی امید و انتظار میں 12 سال بیت گئے مگر ‘‘بابا’’ نہ آئے ۔لوگوں نے بہتیرا کہا کہ بھلا جانے والے بھی آیا کرتے ہیں۔۔!مگر نہ جانے کیوں ان کا انتظار رہا اور رہتا ہے ۔ ہر خوشی کے موقع پر ان کی یاد سے دل بوجھل سا رہتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے دل نہیں بلکہ کوئی بجھا ہوا دیا ہو ۔

             میں نے تو ہوش بھی نہیں سنبھالا تھا کہ پہلے ہی انکا بلاوا آگیا …… اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ جانے والے کوکبھی کوئی نہ روک سکا لیکن پھر بھی احساسِ غم ہے کہ مندمل نہیں ہوپاتا۔

            والدین ایسی ہستی ہیں کہ ان کی کمی دنیا کی کوئی محبت پُر نہیں کر سکتی ۔ زندگی بھر یہی حسرت دامن گیر رہے گی کہ کاش میں بھی اپنے والد کی شفقت کا کوئی حصہ حاصل کر پاتی ۔

            اس سال اِس یادِرفتگاں میں مزید ایک اور یادِ دل فگار کا اضافہ ہو چکا ہے۔ ایک ایسی کزن ، ایسی بہن جو کہ انمول تھی۔ یہ دو حادثات ایسے ہیں کہ شاید کبھی مندمل نہ ہو پائیں۔ یہ حادثہ میری شخصیت و زیست میں بہت کچھ تبدیلی پیدا کر گئے۔ یقین تو شاید کبھی نہ آئے کہ وہ ہم میں نہ رہی۔ 13 فروری کا دن کیا کم تھا کہ 9 جون کا دن بھی ایک المیہ بن کے رہ گیا۔ اول الذکر تاریخ کو‘‘بابا جانی’’ کی جدائی اور ثانی الذکر کو میری کزن کی وفات ۔ اس عید پر دو دو یادیں دلِ پریشاں کوکچوکے لگاتی رہیں ۔ انسان کیسی کیسی لمبی امیدیں باندھتا ہے مگر بعض اوقات یہ امیدیں بر آنے سے پہلے ہی ربِ کریم کا بلاوا آجاتا ہے۔

            اللہ پاک ان دونوں کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور جنت الفردوس میں عالی شان ٹھکانہ نصیب فرمائے اور دعا ہے کہ ہمیں بھی حالتِ ایمان میں موت نصیب فرمائے تاکہ ہم بھی رب العزت کے سامنے سرخرو ہوسکیں۔ آمین