اسلامی بینکاری ، کتنی اسلامی؟

مصنف : ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی

سلسلہ : منتخب کالم

شمارہ : ستمبر 2012

            سورۃ البقرۃ کی آیات 278-279 سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں سود کی ہر شکل قطعی ممنوع ہے اورسود اس لیے حرام قرار دیا گیا ہے کہ یہ ظلم اور استحصال کا سبب بنتا ہے ۔ اسلامی تعلیمات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ سودی نظام کے متبادل کے طور پر اسلامی بینکاری کا جو بھی نظام وضع کیا جائے ، اول، اس نظام میں سود کا شائبہ بھی نہیں ہونا چاہیے ۔ دوم، اس نظام سے سودی نظامِ بینکاری سے ہونے والے ہر قسم کے ظلم ، ناانصافی اور استحصال کا لازماََ خاتمہ ہونا چاہیے اور سوم، اس نظام کے نفاذ سے اسلامی نظامِ معیشت کے حصول میں نہ صرف معاونت ہونی چاہیے بلکہ تمام فریقوں کو لازماََ سماجی انصاف ملنا چاہیے۔ گزشتہ برسوں کے تجربات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسلامی بینکاری کے عملی نفاذ سے آخر الذکر دونوں مقاصد تو یقینا حاصل نہیں رہے جبکہ اسلامی بینکوں کی آڈٹ رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اول الذکر مقصد کے ضمن میں بھی خاصے تحفظات موجود ہیں ۔ اسٹیٹ بینک کے احکامات کے تحت پاکستان میں یکم جنوری 2003 سے سودی بینک اور اسلامی بینکاری کے جھنڈے تلے کام کرنے والے بینک ساتھ ساتھ کام کر رہے ہیں چنانچہ سودی نظام کو ملک میں دوام بخش دیا گیا ہے۔ بینکاری کا یہ متوازی نظام قطعی غیر اسلامی ہے۔ وہ قابلِ احترام علما جو مروجہ اسلامی نظامِ بینکاری کی پشت پر ہیں انہوں نے حیران کن طور پر اس معاملے میں قطعی خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اورہ وہ یہ فتوی جاری نہیں کر رہے کہ متوازی نظامِ بینکاری غیر اسلامی ہے۔ اس طرح وہ بھی سودی نظامِ بینکاری کو برقرار رکھنے اور دوام بخشنے میں عملاََ معاونت کرر ہے ہیں ۔ اس حقیقت کا ادراک بھی ضروری ہیے کہ اگر آنے والی ناانصافی کو ختم کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کرے بھی تو وہ ناکام رہے گی کیونکہ اسے اپنی فنانسنگ (قرضوں) پر لی جانے والی شرح منافع بڑھانی پڑے گی جس کے لیے سرمایہ لینے والی بیشتر پارٹیاں تیار نہیں ہوں گی کیونکہ انہیں سودی بینکوں سے کم شرح سود پر قرضہ دستیاب ہے۔ واضح رہے کہ اسلامی بینک اپنے بچت کھاتے داروں کو اسٹیٹ بینک کے احکامات کے تحت 6 فیصد سالانہ شرح منافع دے رہے ہیں جبکہ ملک میں افراطِ زر کی شرح تقریباََ 10 فیصد سالانہ ہے یعنی 4 فیصد حقیقی منفی شرح جو کہ استحصال کے زمرے میں آتا ہے۔ اب سے چند برس قبل تک علما حضرات کا موقف تھا کہ اسلامی بینکاری کی اصل بنیاد نفع و نقصان کی تقسیم پر ہو گی اور اسلامی بینکوں کا بیشتر کاروبار مشارکہ و مضاربہ پر مبنی ہو گا جبکہ صرف عبوری دور کے لیے بوقت ضرورت کچھ دوسرے طریقے مثلاََ مرابحہ وغیرہ اختیار کیے جا سکتے ہیں۔ حیران کن طور پر عبوری دور کا لفظ اب عملاََ حذف کردیا گیا ہے ۔ اسلامی بینک مشارکہ و مضاربہ کے تحت اپنی مجموعی فنانسنگ مرابحہ اور اجارہ وغیرہ کے تحت کر رہے ہیں جہاں حتمی نتیجہ سودی نظام سے مختلف نہیں ہوتا ۔ اسلامی بینک سرمایہ لینے والی پارٹی کے کاروبار میں ہونے والے نقصان کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے اور پہلے سے طے شدہ شرح منافع وصول کرلیتے ہیں۔ سود پر مبنی معیشت کے ماحول میں اسلامی بینکاری کے تحت فنانسنگ کے طریقوں کو قابلِ عمل بنانے کے لیے علما حضرات بہت زیادہ لچک کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ اسلامی بینکاری میں جبکہ (بہانے بازی) کے تصور کو پروان چڑھا دیا گیا ہے۔ اسلامی بینکاری کے فلسفہ میں علما کی منظوری سے بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لائی جا چکی ہیں اور شریعہ کے مقاصد پسِ پشت جا چکے ہیں۔ پاکستان میں سودی بینکوں اور اسلامی بینکاری کے ضمن میں کچھ اہم فیصلے ان سودی بینکوں کی انتظامیہ ہی کرتی ہے۔ بدنامِ زمانہ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والی سپریم کورٹ کی شریعت اپیلٹ بنچ نے 24 جون 2002 کو اپنی ہی بنچ کے23 دسمبر 1999 اور وفاقی شرعی عدالت کے 14 نومبر 1991 کے سود کو حرام قرار دینے کے فیصلوں کو کالعدم کر کے از سرِ نو شنوائی کے لیے وفاقی شرعی عدالت کو بھیج دیا جہاں 122ماہ گزرنے کے باوجود شنوائی ہی نہیں ہوئی۔ اسلامی نظریاتی کونسل ، مذہبی جماعتوں اور علما نے اس پر کسی اضطراب کا اظہار نہیں کیا۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے جج تو کیفر کردار تک پہنچ چکے ہیں مگر ان کا یہ تباہ کن فیصلہ پوری آ ب و تاب سے (10 برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود) برقرار ہے۔ ان حالات میں عام مسلمان مایوسی کا شکار ہیں۔ پاکستان میں 96 فیصد کھاتے سودی بینکوں کے پاس ہیں جبکہ صرف 4 فیصد کھاتے اسلامی بینکوں کے پاس ہیں ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے اڑھائی برس سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود قرضوں کی معافی اور اسٹیٹ بینک کے سرکلر 29 مورخہ 15 اپریل 2002 کے ضمن میں فیصلے نہ آنے سے ان قرضوں کی وصولی کا امکان تقریباََ ختم ہو گیا ہے جس سے کئی سو ارب روپے کا جھٹکا لگے گا۔ وکلا برادری اور ریٹائرڈ جج صاحبان بھی اس معاملے پر خاموش ہیں ۔ یہی نہیں ، 10 اگست 2012 کو اسٹیٹ بینک نے اپنی خودمختاری سے دستبردار ہو کر وزارت خزانہ کے ایک ذیلی ادارے کا روپ اپنایا اور پالیسی ریٹ کو 12 فیصد سے کم کر کے 10.5 فیصد کر دیا جس سے حکومت کو ملکی قرضوں پر سود کی ادائیگی کی مد میں کئی ارب روپے ماہانہ کی بچت ہو گی مگر اس کے نتیجے میں سودی اور اسلامی بینک اور نیشنل سیونگ سینٹرز میعادی کھاتے داروں اور سرمایہ کاروں کو دی جانے والی شرح منافع میں کمی کا اعلان کر دیں گے۔ شرح سود میں کمی کے بجائے اسٹیٹ بینک کو بینکنگ اسپریڈ میں 350 پوائنٹس کمی کا اعلان کرنا چاہیے تھا تاکہ بینکوں کے کھاتے داروں کو دی جانے والی شرح میں 250 پوائنٹس ا ضافہ اور قرضوں پر مارک اپ کی شرح میں کمی ممکن ہوتی۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ چند علما جو مروجہ اسلامی نظامِ بینکاری کی پشت پر ہیں فتوی جاری کریں کہ موجودہ نظام متوازی بینکاری غیر اسلامی ہے اور اگر سودی نظام کے تحت چھ ماہ بعد ڈیپازٹس لینے اور ان کی تجدید کرنے پر پابندی نہ لگائی گئی تو وہ مروجہ اسلامی نظامِ بینکاری کی حمایت واپس لے لیں گے ۔ موجودہ اسلامی نظامِ بینکاری کو شریعت کی روح کے مطابق لانے کے لیے ان جید علما سے جنہوں نے 28 اگست 2008 کو متفقہ فتوی جاری کیا تھا کہ مروجہ اسلامی نظامِ بینکاری غیر اسلامی ہے اور اسلامی ذہن رکھنے والے بینکاری کے ماہرین کی مشاورت سے بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں اس نظام میں لانا ہوں گی۔

( بشکریہ : روزنامہ جنگ لاہور ، 15 اگست 2012 )