سوال ، جواب

مصنف : مولانا طالب محسن

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : جون 2012

جواب : تفصیلی معلومات کے لیے آپ مولانا فہیم عثمانی صاحب کی کتاب حفاظت وحجیت حدیث کا مطالعہ فرمائیں۔ مختصراً عرض ہے کہ تاریخ میں متعدد صحابہ کے نام آتے ہیں جن کے پاس لکھی ہوئی احادیث کا ذخیرہ موجود تھا۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض لوگوں کو لکھنے کی اجازت دی اور بعض لوگوں کی لکھ کر دینے کی فرمایش بھی پوری کی۔بہر حال دور اول کی جو تصنیف اب بھی دستیاب ہے وہ موطا امام مالک رحمہ اللہ ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : دور اول کی تصنیفات میں سے موطا امام مالک رحمہ اللہ ہی دستیاب ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کا سال وفات۱۷۹ھ ہے۔ غرض یہ کہ یہ دوسری صدی ہجری کی تصنیف ہے۔ کتب حدیث کا ماخذ مختلف راوی ہوتے ہیں۔ بعض راوی ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے پاس احادیث لکھی ہوئی صورت میں بھی ہوتی تھیں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : امام بخاری کا سال وفات۲۵۶ھ ہے۔ اس طرح یہ تیسری صدی ہجری کے نصف اول کی تصنیف معلوم ہوتی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی یہ کتاب رواۃ سے احادیث لے کر مرتب کی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : اس کی وجہ امام بخاری رحمہ اللہ کا معیار تحقیق ہے۔لیکن اس کے جو نتائج نکال لیے گئے ہیں ان سے اتفاق کرنا ممکن نہیں ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : حدیث اور قرآن میں تضاد کی بیشتر مثالیں بالعموم قرآن کی روشنی میں حدیث کو حل نہ کرنے سے پیدا ہوئی ہیں۔ مزید برآں کلام فہمی کے جو اصول بعض فقہا کے پیش نظر رہے ہیں وہ بھی اس کا باعث بنے ہیں کہ بعض چیزوں کو متضاد یا مختلف قرار دے دیاجائے۔ ہمارے خیال میں صحیح روایت اور قرآن مجید میں تضاد ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ البتہ بطور اصول یہی بات کہی جائے گی کہ جو حدیث قرآن سے ٹکرا رہی ہو وہ قبول نہیں کی جا سکتی۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : کتب حدیث میں کچھ روایات کو چھوڑ کر تمام روایات روایت بالمعنیٰ ہیں۔ مراد یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کو راوی نے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ حدیث کہنے کی وجہ یہ ہے کہ محدث کے نزدیک وہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہے۔یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ جب کوئی فن مرتب ہو جاتا ہے تو اس کے بنیادی الفاظ اصطلاح کے طور استعمال ہو رہے ہوتے ہیں۔ ان کا لغوی مفہوم پس منظر میں چلا جاتا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : روایت کا لفظ راوی کی نسبت سے بولا جاتا ہے اور حدیث کا لفظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے۔ یعنی موقع استعمال کے پہلو سے یہ دو لفظ ہیں۔ اطلاق کے پہلو سے انھیں مترادف ہی قرار دیا جائے گا۔

(مولانا طالب محسن)

 جواب : فن حدیث میں روایت ہی کو بطور حدیث قبول کیا جاتا ہے۔ اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ راوی کے الفاظ کو حضور کے الفاظ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے تو آپ کی بات درست ہے۔ لیکن محدثین نے واضح درست اور عملی وجوہ کے تحت اس بات پر اصرار نہیں کیا کہ صرف وہی روایت قبول کی جائے گی جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے الفاظ روایت ہوئے ہوں۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : قرآن مجید کے متعدد مقامات پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ انھی آیات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جاری کردہ سنت پر عمل کا ماخذ قرار دیا جاتا ہے۔ مثلا یاایہا الذین آمنوا اطیعواللہ واطیعواالرسول……(النساء۴:۵۹) وغیرہ۔ اصل یہ ہے کہ جب کسی ہستی کو اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی حیثیت سے مبعوث کرتے ہیں تو وہ دین میں ان پر ایمان لانے والوں کے مقتدا ہوتے ہیں۔یہ بات آپ سے آپ واضح ہے اس کے لیے کسی استدلال کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی حقیقت کو قرآن مجید میں وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ(النساء۴:۶۴) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : عربی زبان میں بالخصوص اور عام زبانوں میں بھی فعل کی فاعل سے نسبت اس کے معنی میں تغیر کر دیتی ہے۔ اس کی اردو میں مثال محبت ہے۔ ماں بیٹے کی محبت اور میاں بیوی کی محبت دو مختلف چیزیں ہے لیکن لفظ ایک ہی بولا جاتا ہے۔‘ صلی’ کا لفظ جب بندوں کی نسبت سے بولا جاتا ہے تو اس سے رحمت کی دعا کرنا مقصود ہوتا ہے اور جب اللہ تعالی کی نسبت سے بولا جاتا ہے تو اس میں رحمت کرنے کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔بے شک اللہ تعالی خالق اور بے نیاز ہیں۔ لیکن وہی سب کا سہارا اور ملجاوماوی بھی ہیں۔ لہذا ان کی عنایات ہی سے یہ کاروبار زیست رواں دواں ہیں۔ سورہ اخلاص میں یہ دونوں پہلو یکجا بیان ہو گئے ہیں ‘ہواللہ احد’ وہ یکتا ہے یعنی ہر شے سے غنی ہے ۔ ‘اللہ الصمد’ اللہ سب کا سہارا ہے۔ یعنی سب مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ سب کا حاجت روا ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : اس معاملے میں اختلاف ہے۔ ہمارے خیال میں قرآن وسنت میں کوئی قطعی چیز نہیں ہے جو اس میں مانع ہو۔ یہ اجتہادی معاملہ ہے۔ ہمارا رجحان یہی ہے کہ غیر مسلم کو زکوۃ دی جا سکتی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اس نوعیت کا ایک واقعہ کتب تاریخ میں نقل ہوا ہے۔ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پانچ سو روایات پر مشتمل ایک مجموعہ تیار کیا ہوا تھا۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس رکھا ہوا تھا۔ ایک رات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بہت بے چین ہیں۔ انھوں نے سبب پوچھا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش رہے۔ صبح ہوئی تو انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے وہ نسخہ منگوایا اور اسے جلا دیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا سبب پوچھا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:‘ اندیشہ ہوا کہ میں مرجاؤں اور یہ مجموعہ میرے ہاں موجود رہے۔ درآنحالیکہ اس میں ایسی روایات موجود ہیں جو میں نے تو اپنے اعتماد کے آدمی سے سنی ہیں لیکن ممکن بات اس طرح نہ ہو جیسے اس نے مجھے بتائی ہے۔ جبکہ میں اسے نقل کرنے والا ہوں۔ یہ صورت معاملہ درست نہیں ہے۔’’

اس جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی خصوصی حیثیت کی وجہ سے ایسا کیا ہے ۔ غالباً انھوں نے سوچا ہو گا کہ میرے مرتب کردہ مجموعہ کی جو حیثیت بن جائے گی وہ درست نہیں ہو گی ۔ جب اخبار احاد کو قطعیت حاصل نہیں ہے تو کوئی ایسا عمل بھی موزوں نہیں ہو گا جو اسے قطعی یا قطعیت کے قریب کر دے۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : ایک ملک جہاں مجرموں سے نمٹنے کا نظام قائم ہو وہاں خود بدلہ لینا انارکی پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے اسے درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آپ نے جو صورت بیان کی ہے وہ ہمارے جیسے معاشروں میں عام ہے۔ یہ اس بات کا عذر نہیں بنانی چاہیے کہ ہم خود ہی کسی کو مجرم ٹھہرائیں اور خود ہی اسے سزا دے ڈالیں۔ بہتر یہی ہے کہ معاملہ اللہ کے سپرد کر دیاجائے۔ اس کے لیے کوئی مشکل نہیں کہ وہ حالات کو بدل دے اور مجرم اپنے کیفر کردار کو پہنچ جائیں۔ اگر اس کی مصلحت یہی تھی کہ اس دنیا میں ایسا نہ ہو توآخرت میں مجرم بھی اپنے انجام کو پہنچے گا اور مظلوم بھی وہ کچھ پالے گا جس کے بعد کوئی شکایت باقی نہ رہے گی۔

(مولانا طالب محسن)

جواب : قرآن مجید نے لونڈیوں اور غلاموں کے نظام کو واضح مصالح کے پیش نظر یک قلم ختم نہیں کیا۔ ایسے معاشرے جہاں غلام ہزاروں کی تعداد میں موجود ہوں اور ہر گھر میں ان کے معاشی سیٹ اپ کا حصے بنے ہوئے ہوں۔ غلامی کو یک قلم ختم کرنا انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو بے سہارا اور بے گھر کر دینے کے مترادف تھا۔ اللہ تعالی نے جنگوں میں گرفتار ہونے والوں کو غلام بنانے کا آپشن ختم کر دیا اور یہ کہا کہ انھیں فدیہ لے کر یا احسان کرکے چھوڑ دیا جائے۔ موجود غلاموں کو مکاتبت کی اجازت دے کر ان کے لیے آزادی حاصل کرنے کی راہ پیدا کر دی۔خلافت راشدہ میں انھی دونوں ضوابط پر پوری طرح عمل کیا گیا۔ مشکل یہ پیش آئی کہ اسلام سے باہر کی سوسائٹی میں غلام بنانے کا عمل جاری رہا اور مکاتبت کی راہ سے فائدہ اٹھانے کا عمل بھی بہت محدود پیمانے پر ہوا چنانچہ آئندہ کئی صدیوں تک غلامی کا رواج قائم رہا۔غلام بنانا ایک کریہہ عمل ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالی اسے جائز رکھتے۔ سورہ محمد(۴۷:۴) کی محولہ آیت نے واضح طور پر غلام بنانے سے روک دیا ہے۔ جاری غلامی کو ختم کرنے کی جو کوشش امویوں اور عباسیوں کو کرنی چاہیے تھی وہ انھوں نے نہیں کی اور اس کا اعزاز امریکیوں کو حاصل ہوا کہ انھوں نے اس مکروہ کاروبار کو بالکلیہ ختم کر دیا۔ کسی کو غلام بنانا ایک ناپسندیدہ فعل ہے اس کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے۔

(مولانا طالب محسن)

 جواب : قرآن مجید میں املا وہی قائم رکھی گئی ہے جو صحابہ رضوان اللہ علیہم نے کی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید اپنی اسی حالت پر قائم رہے جس میں صحابہ رضوان اللہ علیہم نے اسے امت کو منتقل کیا تھا۔ بعد میں املا کے طریقے تبدیل ہو گئے۔ یہ تبدیلی کئی پہلوؤں سے ہوئی ہے۔ اس کی روشنی میں قرآن کی املا کو تبدیل کرنا ناموزوں ہے۔ اگر قرآن میں موجود املا کو کوئی شخص غلط کہتا ہے تو وہ موجودہ املا کے قواعد کی روشنی میں کہتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ قرآن کے بارے میں یہ بات اس طرح کہنے کے بجائے یہ کہنا چاہیے کہ قرآن میں بعض جگہ پر املا جدید املا سے مختلف ہے۔ باقی رہا یہ دعویٰ کہ قرآن میں گرامر کی غلطیاں ہیں تو اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ قرآن گرامر کے تابع نہیں ہے۔ گرامرقرآن کے تابع ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ گرامر اہل زبان کے تعامل کو دیکھ کر مرتب کی جاتی ہے۔ اس میں بعض قواعد ایسے بن جاتے ہیں جو اہل زبان کی بعض اختراعات کا احاطہ نہیں کر پاتے۔ اس طرح کی صورت حال میں صحیح رویہ یہ نہیں کہ اہل زبان کی تحریر کو غلط قرار دیا جائے۔ صحیح رویہ یہ ہے کہ گرامر کے اس قاعدے میں ضروری ترمیم کر دی جائے۔خدا کا کلام ہر طرح کے نقص سے پاک ہے۔ ہمیں اس میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ طہ حسین اور بعض مستشرقین کی اس طرح کی مثالیں ان کی کم علمی کا مظہر ہیں۔

(مولانا طالب محسن)